یمن میں سڑکوں پرمظاہروں، سیاسی چپقلش اور تشدد میں اضافے سے حالات خراب ہو گئے ہیں۔ امریکہ عہدے داروں کو تشویش ہے کہ القاعدہ ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔
سی آئی اے کے عہدے داروں نے ان اطلاعات پر تبصرہ نہیں کیا۔ لیکن سی آئے اے کے سبکدوش ہونے والے ڈائریکٹر لیون پینٹا نے جنہیں صدر اوباما نے وزیردفاع کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ یمن میں امن و امان کی خراب صورت حال کی باوجود دہشت گردی کے خلاف کوششیں جاری ہیں۔ ’’ہماری کوشش یہ رہی ہے کہ ہم القاعدہ کی طاقت کو بڑھنے نہ دیں اور ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں تا کہ انہیں فرار کی کوئی راہ نہ ملنے پائے۔ یمن میں صورت حال خطرناک اور غیر یقینی ہے لیکن ہم وہاں بعض عناصر کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور دہشت گردی کے انسداد کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
سی آئی اے کے سابق انٹیلی جنس تجزیہ کار ایملے نکہلحل کہتے ہیں کہ یمن میں امریکہ اور القاعدہ دونوں نے اپنی کوششوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ’’جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ غیر یقینی کی کیفیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ ان حالات میں سی آئی اے زیادہ تیزی سے کارروائی کر سکتی ہے۔ دوسر ے الفاظ میں ایک طرف غیر یقینی کی کیفیت ہے اور دوسری طرف دہشت گردی کے انسداد کی کوششوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘‘
یمن میں امریکہ کی طرف سے ہوائی حملے نئے نہیں ہیں۔ اس سے پہلے کے حملوں میں امریکی فوج کی جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمانڈ نے سی آئی اے کی مدد سے کارروائیاں کی ہیں۔ عموماً ان کارروائیوں میں یمنی حکام کے مشورے سے پائلٹ والے جہاز یا کروز مزائل استعمال کیے گئے ہیں۔
صدر علی عبداللہ صالح نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ القاعدہ کے خلاف سینہ سپر ہیں اور امریکہ نے یمن کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے کروڑوں ڈالر کی امداد دی ہے۔
وکی لیکس نے جنوری 2010ء میں امریکی سفارت خانے کے طرف سے بھیجا جانے والا ایک خفیہ کیبل شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر صالح نے امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے کہا کہ ہم مسلسل یہی کہتے رہیں کہ جو بم مارے جا رہےہیں، وہ ہمارے ہیں، آپ کے نہیں۔
لیکن تقریباً ایک سال قبل یہ حملے روک دیے گئے تھے جب بعض حملوں میں کچھ سویلین اموات ہوئی تھیں۔ اور اب صدر صالح خود بڑی مشکل میں ہیں۔ اپنے محل میں زخمی ہونے کے بعد وہ حال ہی میں علاج کے لیے سعودی عرب گئے ہیں۔ ان کی یمن واپسی کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ایملے کہتے ہیں کہ سی آئی اے کو جو نیا رول دیا گیا ہے اسکی وجہ یہ عام تاثر ہے کہ محکمۂ دفاع کے مقابلے میں سی آئی اے کہیں زیادہ پھرتی سے کارروائی کر سکتی ہے۔ ’’سی آئی اے کو فیصلے کرنے میں بہت سی دفتری کارروائیوں کے مرحلوں سے نہیں گذرنا پڑتا۔ محکمۂ دفاع کے بھاری بھرکم آپریشن کے مقابلے میں سی آئی اے کہیں زیادہ تیزی سے کارروائی کر سکتی ہے۔ اور ان کا نشانہ بھی بالکل صحیح ہوتا ہے۔ اگر انہیں کسی خراب آدمی کے بارے میں کوئی اطلاع ملے تو وہ کسی بیوروکریسی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے کارروائی کر سکتے ہیں۔‘‘
لانگ وار جرنل کے ایڈیٹر بل راگیو کہتے ہیں کہ یمن میں جو نیا ڈرون پروگرام استعمال کیا جا رہا ہے وہ بالکل ویسا ہی لگتا ہے جیسا کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور طالبان جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
’’بہترین صورت تو یہ ہے کہ آپ کو حکومت سے تعاون ملے۔ لیکن ڈرونز کے استعمال سے میرے خیال میں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں حالات کتنے زیادہ خراب ہیں۔ جب کوئی ملک خود اپنے دہشت گردی کے مسئلے پر قابو نہیں پا سکتا تو یہ کام امریکہ کے حوالے کر دیتا ہے۔ اب یہ کام چاہے پیسے کے لیے کیا جائے یا اپنا اثرو رسوخ بر قرار رکھنے کے لیے۔ وجہ چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو اس سے امریکہ بڑی مشکل میں پڑ جاتا ہے کیوں کہ ان حملوں کی وجہ سے مقامی آبادی میں امریکہ کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ تشویش بھی موجود ہے کہ امریکہ اور یمن کے درمیان فوجی اور انٹیلی جنس کا جو تعلق قائم رہا ہے اس میں موجودہ ہنگاموں کی وجہ سے خلل پڑ سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ تعلق بالکل ختم ہو جائے اور یمن میں دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوششیں زیادہ مشکل ہو جائیں۔