دنیا بھر میں سڑکوں اور آمدروفت کے ذرائع پر دباؤ میں اضافہ ہورہاہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہے۔
دنیا کے ان حصوں میں، جو صنعتی اور اقتصادی اعتبارسے ترقی یافتہ ہیں، وہاں رہنے والوں کو روزانہ کئی گھنٹے اپنے کام پر جانے اور واپس گھر آنے کے لیے سڑکوں پر گذارنا پڑتے ہیں۔اور اس دورانیے میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
آئی بی ایم نے دنیا کے 20 ایسے شہروں کے مطالعاتی جائزے پر مبنی رپورٹ تیار کی ہے، جہاں کی سڑکیں ٹریفک کے شدید دباؤ کی زد میں ہیں۔ ان میں ماسکو، نئی دہلی ،لاس اینجلس اور جوہانس برگ سمیت دیگر گنجان آباد شہر شامل ہیں۔اس معالیاتی جائزے میں یہ جاننے کی بھی کوشش کی ہے کہ ٹریفک میں گھنٹوں پھنسے رہنے سے لوگوں کی نفسیات پر کیااثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے آٹھ ہزار افراد سے انٹرویوز کیے گئےتھے۔
آئی بی ایم کے نیوین لیمبا کا کہنا ہے کہ سروے میں شامل ایک تہائی لوگوں کا کہنا تھا کہ ٹریفک میں پھنس کر ان کے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے اورانہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آنے لگتاہے۔کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ گذشتہ تین برسوں میں سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ میں شدید اضافہ ہوا ہے اور بعض اوقات تو اپنے کام پر جانے والوں کو، گھنٹوں سڑکوں پر پھنسے رہنے کے بعد دفتر جائے بغیر اپنے گھر لوٹنا پڑتا ہے۔کئی لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ رش کے اوقات میں کئی دوسرے ڈرائیوروں کا رویہ انتہائی نامناسب ہوجاتاہے ۔
لیمبا کا کہنا تھا کہ بدترین ٹریفک کے اعتبار سے شہروں میں بیجنگ اور میکسیکو سٹی پہلے نمبر پر ہیں۔جب کہ جنوبی افریقہ کےشہر جوہانس برگ کا نمبر ان کے بعد آتا ہے۔
لیمبا کہتے ہیں کہ سویڈن کے شہر اسکاٹ ہوم کی شہری انتظامیہ نے ٹریفک کے دباؤ سے نمٹنے کے لیے کئی مفید اقدامات کیے ہیں، جن سے ان شہروں کے منتظمین کو بھی فائدہ اٹھانا چاہیے جو اس مسئلے میں گھرے ہوئے ہیں۔
اسٹاک ہوم میں اس سلسلے میں جو اقدامات کیے گئے ہیں ان میں سے ایک رش کے اوقات میں شہر کے وسطی حصے میں ڈرائیونگ کرنے والوں کو ایک خاص فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس ٹیکس کے نفاذ کا مقصد اپنی گاڑیاں سڑکوں پر لانے کی حوصلہ شکنی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کی ترغیب دینا ہے۔لیمبا کہتے ہیں کہ اس اقدام کے نتیجے میں ٹریفک کادباؤ 20 سے 25 فی صد تک کم ہواہے۔
آئی بی ایم کی رپورٹ میں امریکی شہر ہوسٹن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہاں ٹریفک منیجمنٹ کے لیے خصوصی طور پر کام ہورہاہے۔ ہوسٹن میں ٹرانسپورٹ منصوبہ بندی کے ڈائریکٹر ایلن کلارک کہتے ہیں کہ سڑکوں پر رش کی قیمت لوگوں کو ایک ہزار ڈالر سالانہ صورت میں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ وہ یہ رقم گاڑی کے پٹرول کے اضافی خرچ اور اپنے وقت کے نقصان کی شکل میں ادا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سڑکوں پر دباؤ میں کمی لانے کے لیے ہم دفتر کی بجائے گھر پر رہ کر کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کے ذریعے کام کرنے اورآمد روفت کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
کلارک کا کہنا ہے کہ ٹریفک کے مسئلے سے نئی سڑکیں بنانے کی بجائے اپنے رہنے سہنے اور کام کے انداز میں تبدیلی کے ذریعے نمٹا جاسکتا ہے۔
تاہم گلوبل پوزیشننگ سسٹم میں ایک نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے اب گاڑی چلانے والوں کو سڑک کی صورت حال کا کئی میل قبل ہی پتا چل جاتا ہے اور وہ متبادل راستہ اختیار کرکے رش سے بچتے ہوئے جلد اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔