برطانوی ادارے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق ہالی وڈ فلمیں ہوں یا بالی وڈ، ان میں خواتین کو اب بھی نمائشی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
سروے کے مطابق، اگرچہ دنیا بھر کی فلم انڈسٹریز تکنیک اور جدت کے حوالے سے بہت ترقی کر گئی ہیں، لیکن جو ایک چیز نہیں بدلی وہ خواتین کا فلموں میں نمائشی کردار ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے ذیلی ادارے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کی سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین اگر فلم میں کسی باس کا یا کوئی اور دبنگ کردار ادا کریں تب بھی ان کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہ بوسیدہ اور دقیانوسی سوچ آج بھی سلور اسکرین پر حاوی ہے۔
'رائٹس گروپ پلان انٹرنیشنل' اور 'جینا ڈیوس ریسرچ انسٹیٹوٹ' کے مطابق، اتنے برس میں یہ فرق ضرور آیا ہے کہ خواتین کو ماضی کے مقابلے میں اب بہتر اور مختلف قسم کے رول دیے جانے لگے ہیں۔
ان دونوں اداروں کا کہنا ہے کہ جیمز بانڈ کی اگلی فلم کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ اس میں 'ڈبل او سیون' کا کردار خاتون ادا کریں گی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ناصرف خواتین کو تفریح یا بناوٹی چیز سمجھا جاتا ہے بلکہ اسی نظر سے دیکھا بھی جاتا ہے۔
خواتین کو مردوں کے مقابلے میں اسکرین پر چار گنا زیادہ عریاں کرداروں میں پیش کیا جاتا ہے۔
یہ اعداد و شمار 2018 میں 20 ممالک میں سب سے زیادہ کاروبار کرنے والی 56 فلموں پر کی جانے والی تحقیق سے حاصل کیے گئے۔
چیف ایگزیکٹو پلان انٹرنیشنل اینی کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے ڈبل او سیون یا سپر ہیرو کے کرداروں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایسے کردار عام طور پر نہیں بلکہ کبھی کبھار ہی خواتین کے حصے میں آتے ہیں۔
ان کے مطابق، حقیقت یہ ہے کہ صنفی امتیاز اور نقصان دہ اسٹیرئو ٹائپ کردار آج بھی سینما کے پردے پرحاوی ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کو محض کسی شو پیس کے طور پر پیش کرنے کے رجحان کو روکنے کی ضرورت ہے۔
سان ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق، خواتین کو اسکرین پر بھرپور نمائندگی نہیں ملتی۔ انہیں عموما معاون کردار ہی ملتے ہیں۔ 2018 کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی تین فلموں میں سے صرف ایک مضبوط کردار ایسا تھا جو کسی خاتون نے ادا کیا۔
تحقیق کے مطابق، خواتین اگر پاورفل کردار بھی ادا کرتی ہیں تو بھی انہیں نمائشی سمجھا جاتا ہے۔
تحقیق میں امریکہ، بھارت، سوئیڈن، یوگینڈا اور جنوبی سوڈان کی 56 کامیاب فلموں کا جائزہ لیا گیا تھا۔
تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ خواتین کے ادا کردہ ایک تہائی مضبوط کردار بھی نامناسب کپڑوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ شرح مردوں میں 10 فیصد سے کم ہے جبکہ خواتین کے ادا کردہ دو فیصد مرکزی کرداروں میں انہیں عریاں یا نیم عریاں دکھایا جاتا ہے جبکہ مردوں کے لہے یہ شرح 0.5 فی صد ہے۔
اس رپورٹ کے لیے جن فلموں کا سروے کیا گیا ان میں کوئی فلم بھی کسی خاتون نے ڈائریکٹ نہیں کی تھی۔ صرف 10 فیصد ایسی فلمیں تھیں جن کے مصنفین میں صرف ایک خاتون شامل تھیں۔