رسائی کے لنکس

فروغ نسیم؛ مشرف اور عمران خان کے بعد اب شہباز شریف کے وکیل


یہ 2014 کی بات ہے جب بیرسٹر فروغ نسیم، سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اور عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل کو علاج کی خاطر ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے۔

تقریباً ایک سال کے قریب ان کی اس درخواست پر دلائل اور مخالف دلائل جاری رہے جس کے بعد جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے قرار دیا کہ پرویز مشرف کے بیرون ملک علاج کی خاطر جانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔

بطور کورٹ رپورٹر اس مقدمے کی سماعت کے دوران مجھے ڈاکٹر فروغ نسیم کو بغور سننے کا اتفاق ہوا۔ اس سے پہلے کراچی بدامنی کیس میں بھی ڈاکٹر فروغ نسیم نے متحدہ قومی موومنٹ کی وکالت کرتے ہوئے دلائل دیے تھے۔

اس دوران مجھے اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر فروغ نسیم آئینی معاملات میں بھرپور گرفت رکھتے ہیں۔ اپنے دلائل کے دوران نہ صرف انہوں نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے گزشتہ فیصلوں کی مثالیں پیش کیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے قوانین اور وہاں کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا۔

یہیں سے ڈاکٹر فروغ نسیم سے قریبی دوستی کا آغاز ہوا۔ شارع فیصل پر واقع ایک عمارت میں واقع ان کے چیمبر میں کئی کئی گھنٹے بیٹھک لگتی اور ان سے سیاست، صحافت، قانونی پیچیدگیوں اور دیگر کئی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔

سن 2018 میں وہ تحریکِ انصاف کی حکومت میں وزیر قانون مقرر ہو گئے تو ملاقاتوں کا سلسلہ کم ہوگیا اور وہ زیادہ عرصے وفاقی دارالحکومت ہی میں مقیم رہنے لگے۔ لیکن اب وہ ایک بار پھر خبروں میں ہیں جب ملک کے وزیر اعظم شہباز شریف نے انہیں نو مئی کے پر تشدد ہنگاموں میں گرفتار 100 سے زائد افراد کا ملٹری ٹرائل کرنے کے خلاف دائر درخواستوں میں اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔

سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے وکیل

ڈاکٹر فروغ نسیم کی بطور وکیل وزیر اعظم تعیناتی پر جہاں سیاسی پنڈت حیران ہیں وہیں خود مسلم لیگ (ن) کے اندر سے بھی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور ان کی تعیناتی پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔

فروغ نسیم کے حوالے سے یہ تاثر ہے کہ وہ پاکستان کی طاقت ور فوج کے انتہائی قریبی ہیں اور اس کے ثبوت کے طور پر ماضی میں بیرسٹر فروغ نسیم کو سابق صدر اور آمر جنرل پرویز مشرف کے بطور وکیل بھی پیش ہونے کو لیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ انورمنصور خان کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے وکیل بنے تھے جن کے دلائل کے وزن سے ایک وقت ایسا لگتا تھا کہ سنگین غداری کیس کا کوئی بھی نتیجہ نہیں نکل پائے گا۔

وہ اپنے دلائل میں عدالت کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ آئین کو معطل رکھنا فقط سابق صدر ہی کا فعل نہیں تھا بلکہ اس میں اس وقت کے گورنرز، وزرائے اعلیٰ، وزیر اعظم اور دیگر معاونین کا بھی ہاتھ تھا اور انہیں شامل تفتیش کیے بغیر تفتیش آگے نہیں بڑھ سکتی۔ تاہم دو سال تک کیس سے مفرور رہنے پر مشرف کے خلاف دوبارہ کیس کا آغاز ہوا اور پھر بھی پیش نہ ہونے پر ان کا حق دفاع ختم کردیا گیا۔

یہی نہیں جب خصوصی عدالت نے سابق صدر کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تو ڈاکٹر فروغ نسیم اس وقت وزیر قانون تھے۔ فیصلہ سامنے آنے کے بعد جہاں اسے فوج نے شدید ردِعمل دیتے ہوئے مسترد کیا تھا وہیں وزیر قانون نے بھی ایک دھواں دار پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے فیصلہ دینے والے ایک جج جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان کیا تھا۔

اس فیصلے کو آئین اور قانون سے ماورا قرار دیا تھا۔ خیال رہے کہ اس کیس میں حکومت ہی مدعی تھی اور مدعی کا اپنا وزیر ہی ملزم کو سزا دیے جانے پر کڑی تنقید کرتا نظر آ رہا تھا۔

اس فیصلے سے قبل جب ملک میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا مقدمہ سپریم کورٹ میں جاپہنچا تو بھی وفاقی وزیر قانون کے عہدے پر تعینات ڈاکٹر فروغ نسیم نے کابینہ میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر جنرل قمر جاوید باجوہ کی عدالت میں وکالت کی تھی اور مدت ملازمت کا معاملہ جب حل ہو گیا تو ایک بار پھر وہ حلف لے کر وزیر قانون کی نشست پر براجمان ہوگئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خؒلاف ریفرنس کے حامی

یہی نہیں جب بات سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہوا اور اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان نے اس ریفرنس میں وفاق کی نمائندگی سے معذوری ظاہر کی تھی تو ایک بار پھر بیرسٹر صاحب نے وزیر قانون کی حیثیت سے استعفیٰ دیا اور صدارتی ریفرنس کی سماعت میں وفاق کی نمائندگی کی تھی۔

عدالت نے اس ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ کو بے قصور قرار دیا تھا لیکن بیرسٹر فروغ نسیم نے وزیر قانون بننے کے بعد ایک بار پھر جسٹس عیسیٰ ریفرنس کے فیصلے کے خلاف کیوریٹو اپیل سپریم کورٹ میں دائر کرائی جسے حال ہی میں شہباز شریف حکومت نے واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔

جنوری 2020 میں جب ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے عمران خان کی وفاقی کابینہ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تو اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر فروغ نسیم نے استعفیٰ دینے سے گریز کیا تھا۔

تاہم بعد میں جب 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو ایم کیو ایم آخری جماعت تھی جس نے عمران خان کی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران ایم کیو ایم کے دونوں وفاقی وزرا یعنی سید امین الحق اور خود بیرسٹر فروغ نسیم نے بھی کابینہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

لندن یونی ورسٹی کے مشہور زمانہ لندن اسکول آف اکنامکس اور یونی ورسٹی آف ویلز سے قانون کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد دھیمے مزاج اور ہنس مُکھ شخصیت کے مالک بیرسٹر فروغ نسیم نے تقابلی آئینی قوانین کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

کچھ عرصہ وہ سندھ مسلم کالج میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ ان کا شمار بلامبالغہ پاکستان کے بڑے آئینی وکیلوں میں کیا جاتا ہے اور وہ کم عمر ترین ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے ہیں۔

'ظاہر ہو رہا ہے کہ فروغ نسیم اس کیس میں کس کی نمائندگی کریں گے'

ان کے قریبی دوست اور کئی دہائیوں تک کورٹ رپورٹنگ سے منسلک رہنے والے صحافی اخگر انور اعوان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک ذہین قانونی ماہر تو ہیں لیکن ان کا مقابلہ ماضی کے آئینی اور قانونی ماہر جیسے شریف الدین پیرزادہ، عزیز اے منشی یا خالد انور جیسے لوگوں سے نہیں کیا جاسکتا۔

اخگر انور کے مطابق جب ڈاکٹر فروغ نسیم صرف پریکٹس کرتے تھے تو ان کا سیاست کی جانب کوئی خاص رحجان نہیں تھا لیکن رفتہ رفتہ ان کے تعلقات پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں سے استوار ہوتے چلے گئے۔

اخگر انور کہتے ہیں کہ غالباً انہی کے کہنے پر بعد میں بیرسٹر فروغ ایم کیو ایم میں شامل ہوئے جہاں سے وہ اب سینیٹر ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے کئی چوٹی کے رہنما عمران خان کابینہ میں بطور وزیر ان کی شمولیت کو پارٹی کے کوٹے کے بجائے "ان" کے کوٹے میں شمار کرتے تھے۔

اخگر انور کا کہنا ہے کہ نو مئی کے پُرتشدد واقعات میں ملوث افراد کے ملٹری ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں بطور وزیر اعظم شہباز شریف کے وکیل کے پیش ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بیرسٹر فروغ نسیم اس کیس میں کس کی نمائندگی بہتر طور پر کر پائیں گے۔

تاہم دوسری جانب مبصر اور نام ور وکیل عبدالمعیز جعفری کا کہنا ہے کہ ہر وکیل کو یہ مکمل حق ہے کہ وہ کسی بھی کیس میں ملک کی کسی بھی عدالت میں پیش ہو اور اپنے موکل کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اس کے لیے دلائل دے۔

عبدالمعیز جعفری کے مطابق یہ سوچنے کا مقام بیرسٹر فروغ نسیم کا نہیں بلکہ خود وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے ہے جنہوں نے ایسے شخص کو اپنا وکیل چُنا جو خود عمران خان حکومت میں وزیر قانون تھے۔

ان کے خیال میں ڈاکٹر فروغ نسیم کے لیے کوئی عجیب بات نہیں کیوں کہ وہ صرف اپنے موکل کی وکالت کے لیے عدالت میں موجود ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG