رسائی کے لنکس

'مودی سے سوال پوچھنے والی صحافی کو ہراساں کرنا ناقابلِ قبول ہے'


وائٹ ہاؤس کوریسپونڈنٹس ایسو سی ایشن کی صدر ٹمارا کیتھ نےصحافی سبرینا صدیقی کو آن لائن ہراساں کیے جانے کو ناقابلِ قبول  قرار دیا ۔فائل فوٹو
وائٹ ہاؤس کوریسپونڈنٹس ایسو سی ایشن کی صدر ٹمارا کیتھ نےصحافی سبرینا صدیقی کو آن لائن ہراساں کیے جانے کو ناقابلِ قبول  قرار دیا ۔فائل فوٹو

وائٹ ہاؤس کوریسپونڈنٹس ایسو سی ایشن کی صدر ٹمارا کیتھ نے امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے لئے وائٹ ہاؤس کی کوریج کرنے والی صحافی سبرینا صدیقی کو آن لائن ہراساں کیے جانے کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔

کیتھ نے اپنے تحریری بیان میں کہا،" وال سٹریٹ جرنل کی سبرینا صدیقی کسی امریکی نیوز آؤٹ لیٹ کی واحد صحافی تھیں جو گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں صدر بائیڈن کی وزیرِ اعظم مودی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بلائی گئی تھیں۔ انہوں نے وائٹ ہاؤس کی پریس کور کی بجا طور پر نمائندگی کی اور وہ سوال پوچھے جو ہم میں سے بیشتر کے پاس سرِ فہرست تھے۔"

کیتھ نے اپنے بیان میں مزید کہا،" بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد سے انہیں آن لائن شدید ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے وزیرِ اعظم کی سیاسی پارٹی سے روابط ہیں۔وہ ان کے مقاصد، ان کے مذہب اور ان کے ورثے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔"

وائٹ ہاؤس کوریسپونڈنٹس ایسو سی ایشن، ڈبلیو ایچ سی اے کی صدر ٹمارا کیتھ نے اپنے بیان مین مزید کہا، "یہ سب ناقابلِ قبول ہے۔ ڈبلیو ایچ سی اے سبرینا اور اس کے پوچھے گئے سوالات کے ساتھ کھڑی ہے۔ کسی جمہوریت میں صحافیوں کو محض اپنا فرض ادا کرنے اور پوچھنے کے لائق سوال پوچھنے پر نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئیے۔"

اس سے پہلےوائٹ ہاؤس نے صدر بائیڈن اور بھارتی وزیرِ اعظم کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران نریندر مودی سے بھارت میں جمہوری اقدار اور اقلیتوں سے متعلق سوال پوچھنے والی خاتون رپورٹر کو ہراساں کرنے کی مذمت کی تھی۔

امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے ایک بیان میں بتایا کہ "وائٹ ہاؤس خاتون رپورٹر کو آن لائن ہراساں کیے جانے کی رپورٹس سے آگاہ ہے۔"

امریکی جریدے 'وال اسٹریٹ جرنل' نے بتایا تھا کہ اُن کی خاتون رپورٹر سبرینا صدیقی کو نریندر مودی سے مذکورہ سوال پوچھنے پر آن لائن ٹرولنگ کا سامنا ہےاور اسےبھارت میں ہراساں کیا جا رہا ہے۔

جریدے کے مطابق ہراساں کرنے والوں میں س بعض سیاست دان بھی ہیں جن کا تعلق مبینہ طور پر بی جے پی حکومت سے ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ سبرینا کو ان کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جان کربی کا کہنا تھا کہ "یہ مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہے اور اُن جمہوری اُصولوں کے برعکس ہے جس کا اظہار وزیرِ اعظم مودی کے دورے کے دوران کیا گیا تھا۔"

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین یاں پیئر نے بعدازاں ایک بیان میں کہا کہ "ہم آزادیٔ صحافت کے لیے پرعزم ہیں اور کسی صحافی کو ڈرانے یا ہراساں کرنے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہیں۔"

خیال رہے کہ سبرینا صدیقی نے بھارتی وزیرِ اعظم سے سوال کیا تھا کہ بھارت سب سے بڑی جمہوریت کا دعوے دار ہے۔ لیکن بہت سے انسانی حقوق کے گروپس کہتے ہیں کہ آپ کی حکومت مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتتی ہے اور ناقدین کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

خاتون رپورٹر نے کہا کہ "آپ وائٹ ہاؤس کے جس مقام پر کھڑے ہیں وہاں بہت سے عالمی رہنما اپنے ممالک میں جمہوری اقدار کے تحفظ کے وعدے کرتے ہیں، تو آپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے تحفظ اور اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے کیا اقدامات اُٹھا رہی ہے۔"

اس پر بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ "جمہوریت ہمارے ڈی این اے میں ہے، یہ ہماری رگوں میں دوڑتی ہے، جمہوریت ہماری زندگی ہے اور ہمارے بڑوں نے ان جذبات کو آئین کی شکل میں ڈھالا ہے۔"

بھارتی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ" ہمارا آئین جمہوریت کے بنیادی اُصولوں پر مبنی ہے اور ہمارے ملک کی بنیادیں بھی اسی ستون پر قائم ہیں۔ ہمارا آئین رنگ، نسل، ذات، مذہب میں کوئی امتیاز نہیں کرتا،اور جہاں انسانی حقوق نہ ہوں وہاں کوئی جمہوریت نہیں ہوتی۔"

وال اسٹریٹ جرنل نے سبرینا صدیقی کو آن لائن ٹرولنگ کا نشانہ بنائے جانے پر اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ سبرینا ایک غیر جانب دار ، بااُصول اور قابلِ احترام صحافی ہیں۔لہذٰا ہماری رپورٹر کے ساتھ یہ سلوک ناقابلِ قبول اور قابلِ مذمت ہے۔

سبرینا صدیقی نے اپنے اُوپر ہونےو الی تنقید کے بعد اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ بھارتی کرکٹ ٹیم کی کٹ پہنے اپنے والد کے ہمراہ ٹیم انڈیا کو سپورٹ کر رہی ہیں۔

اپنی ٹوئٹ میں سبرینا نے لکھا کہ اُن لوگوں کے لیے جو میرے بیک گراؤنڈ پر سوال اُٹھا رہے ہیں، تصویر کا درست رُخ دکھانا ضروری ہے ۔

سبرینا صدیقی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کی پڑپوتی ہیں۔ ان کے والد بھارت میں پیدا ہوئے لیکن ان کی پرورش پاکستان میں ہوئی۔

ان کی والدہ پاکستانی ہیں۔ سبرینا امریکہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ انہوں نے چار سال قبل محمد علی سید جعفری سے شادی کی۔ ان کی ایک بیٹی ہے جس کا نام صوفی ہے۔ وہ اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ واشنگٹن میں رہائش پذیر ہیں۔

وال اسٹریٹ جرنل میں آنے سے قبل وہ 2019 تک گارڈین سے وابستہ رہی ہیں جب کہ باراک اوباما کے دور میں وہ واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھیں۔

پریس کلب آف انڈیا کے سابق صدر اور سینئر تجزیہ کار گوتم لاہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نریندرمودی نے بھارت میں نو سال کے درمیان ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی۔ لیکن جب امریکہ میں ان سے سوال کیا گیا تو سوال کرنے والی صحافی کو ہراساں کیا جانے لگا۔

ان کے مطابق سبرینا صدیقی نے یہاں کے حالات کے پیشِ نظر سوال کیا تھا اور اگر ہم لوگوں کو موقع ملے تو ہم بھی و ہی سوال کریں گے۔ نریندر مودی کو جو جواب دینا تھا وہ انہوں نے دے دیا۔ لیکن اب سبرینا کو ٹرول کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق اگر مذکورہ سوال پوچھنے والا کوئی غیر مسلم صحافی ہوتا تو اس کو اس طرح ہراساں نہیں کیا جاتا۔ ان کو ٹرول کرنے والوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کا سوال درست تھا اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ ہاں بھارت میں ایسی ہی صورتِ حال ہے۔

گوتم لاہری نے بھارت میں پریس کی آزادی کے معاملے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ اگر بھارت میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہوتا تو اس کی امید کم ہے کہ سرکاری سطح پر اس کی حمایت کی جاتی۔

بقول ان کے بھارت پریس کی آزادی کے انڈکس میں بالکل نیچے چلا گیا ہے۔ وزیرِ اعظم صحافیوں سے بات نہیں کرتے۔ ملک کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں سوال کرنے پر بہت سے صحافیوں کو جیل جانا پڑا ہے۔

یاد رہے کہ کئی صحافیوں پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا انتہائی خطرناک قانون یو اے پی اے اور قومی سلامتی ایکٹ لگا دیا گیا اور غداری کا کیس قائم کر دیا گیا ہے۔ کئی صحافی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی وجہ سے جیل میں ہیں۔

بھارت پریس کی آزادی کے معاملے میں 180 ملکوں کی فہرست میں 161 ویں نمبر پر آگیا ہے جب کہ 2022 میں وہ 150 ویں نمبر پر تھا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہاسنی حیدر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ سبرینا نے معقول سوال کیا تھا جو ایک صحافی کو کرنا چاہیے۔ صحافیوں کو ان کے ذاتی پس منظر کی بنیاد پر نشانہ بنانا ایک پرانا وتیرہ ہے۔ حیرت ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کے جواب پر توجہ دینے کے بجائے اس پر توجہ دی جا رہی ہے کہ سوال کس نے کیا۔

ساؤتھ ایشین جرنلسٹس ایسو سی ایشن نے بھی سبرینا کو ہراساں کیے جانے کی مذمت کی ہے۔ اس نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ہم دیگر جنوبی ایشیائی اور خاتون صحافیوں سمیت جن کو اپنے کام کی وجہ سے ہراسانی کا سامنا ہے، اپنی ساتھی سبرینا کی بھی حمایت کرتے ہیں۔

کانگریس کے سینئر رہنما دگ وجے سنگھ نے وزیرِ اعظم کے دفتر سے کہا کہ وہ ان لوگوں کا پتا لگائے جو مذہب کی بنیاد پر سبرینا صدیقی کو سوشل میڈیا پر ہراساں کر رہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کرے۔

انہوں نے اپنی ٹویٹ میں وزیرِ اعظم سے پوچھا کہ کیا ایسا کرنے والے ان کی ’نجی آرمی ٹرول‘ کے لوگ نہیں ہیں۔ کیا آپ ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیں گے۔

کانگریس کی سوشل میڈیا سربراہ سپریہ شرینیت نے ایک ٹویٹ میں سبرینا کو ہراساں کیے جانے کی مذمت کی اور انہیں ایک بے خوف صحافی قرار دیا۔

یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی مسلم شناخت کی نشان دہی کی جانے لگی اور یہ بتایا جانے لگا کہ ان کے والدین میں سے ایک پاکستانی ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ سبرینا بھارتی نژاد پاکستانی شخص کی بیٹی ہیں اور ان کی والدہ پاکستانی ہیں۔ لہٰذا ایک ایجنڈے کے تحت پوچھے جانے والے ان کے سوال کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG