رسائی کے لنکس

اپوزیشن اتحاد 'انڈیا' کا 14 میڈیا اینکرز کا بائیکاٹ، معاملہ ہے کیا؟


بھارت کے اپوزیشن کے اتحاد ”انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیوسیو الائنس“ (انڈیا) کی جانب سے مین اسٹریم میڈیا کے 14 اینکرز کے پروگراموں کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد نئی دہلی کے صحافیوں نے مختلف آرا کا اظہار کیا ہے۔

بعض صحافی اس فیصلے کی حمایت تو بعض مخالفت کر رہے ہیں۔ بعض دیگر صحافیوں کا کہنا ہے کہ میڈیا اداروں کو اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ اپوزیشن اتحاد نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟

اسی طرح سیاسی جماعتوں کا بھی الگ الگ مؤقف ہے۔ جہاں انڈیا اتحاد کی سب سے بڑی جماعت کانگریس اور دیگر پارٹیوں نے فیصلے کو حق بجانب ٹھہرایا ہے وہیں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔

واضح رہے کہ اپوزیشن اتحاد نے جمعے کو بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ اس کا الزام ہے کہ مین اسٹریم میڈیا کے متعدد نیوز چینل ملک میں نفرت پھیلا رہے اور حکمراں جماعت بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

انڈیا اتحاد میں شامل سب سے بڑی جماعت کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما پون کھیڑہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نفرت سے پُر مبنی اس بیانیے کو جائز نہیں ٹھہرا سکتے جس نے معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے اور نہ ہی اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے طویل عرصے سے مین اسٹریم میڈیا پر دیانت داری اور غیر جانب داری کے صحافت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

اس کا یہ بھی الزام ہے کہ میڈیا حکومت کے ایجنڈے کے تحت کام کر رہا ہے۔ وہ اپوزیشن کے امیج کو غلط طریقے سے پیش کرتا ہے۔

جن اینکرز کے پروگراموں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے وہ ہیں ارنب گوسوامی (ایڈیٹر انچیف ریپبلک ٹی وی)، روبیکا لیاقت (بھارت 24)، سدھیر چودھری، چترا ترپاٹھی، گورو ساونت اور شیو ارور (انڈیا ٹوڈے آج تک نیٹ ورک)، ناویکا کمار (گروپ ایڈیٹر ٹائمز نیٹ ورک)، سوشانت سنہا (ٹائمز ناؤ)، امن چوپڑہ، امیش دیوگن اور آنند نرسمہن (سی این این نیوز 18)، پراچی پاراشر (انڈیا ٹی وی)، ادیتی تیاگی (بھارت ایکسپریس) اور اشوک سریواستو (ڈی ڈی نیوز)۔

'یہ بائیکاٹ نہیں بلکہ خوف ہے'

مذکورہ صحافیوں میں سے متعدد نے اس فیصلے پر اپنا شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔

بعض نے اس فیصلے پر پروگرام کر کے اس کی مخالفت کی ہے۔ سوشانت سنہا کا کہنا ہے کہ یہ بائیکاٹ کم اور ٹارگٹ زیادہ ہے۔ ان کے بقول اس سے خود 'انڈیا الائنس' کے امیج کو نقصان پہنچے گا۔

روبیکا لیاقت کا کہنا ہے کہ یہ بائیکاٹ نہیں ہے بلکہ اپوزیشن کا خوف ہے۔ وہ لوگ صحافیوں کے سخت سوالوں سے بھاگ رہے ہیں۔ انہوں نے اسے میڈیا کو دھمکی دینا بھی قرار دیا۔

کانگریس نے اس فیصلے کا دفاع کیا ہے۔ کانگریس کئی بار یہ الزام لگا چکی ہے کہ میڈیا نے سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی کی تقریباً چار ہزار کلومیٹر کی پیدل یاترا کی رپورٹنگ نہیں کی۔ مزید برآں یہ کہ اس نے اسے غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی۔

پارٹی ترجمان محمد افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کانگریس نے پہلے بھی ان لوگوں کا بائیکاٹ کیا تھا۔ لیکن جب ان کے رویے میں تبدیلی آئی تب بائیکاٹ واپس ہوا تھا۔ لیکن اب پھر یہ لوگ اپنے پروگراموں سے ملک میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔ ان کے بقول نفرت پھیلانے کے الزام میں ان صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بی جے پی اس فیصلے پر تنقید کر رہی ہے لیکن اس نے خود کئی صحافیوں کے پروگراموں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ اس نے برسوں تک این ڈی ٹی وی کے سابق اینکر رویش کمار کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اس نے نشریاتی چینل نیوز 24 کا بھی بائیکاٹ کیا۔

ان کے مطابق اپوزیشن اتحاد نے پریس پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے بلکہ کچھ اینکرز کے پروگراموں میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ان اینکرز کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم آپ کی نفرت انگیز رپورٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اینکرز کی جانب سے نفرت انگیز پروگرام کرنے کے الزام کی تردید کی گئی ہے۔

بی جے پی کی تنقید

حکمراں جماعت بی جے پی نے اپوزیشن کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ پارٹی صدر جے پی نڈا نے اسے میڈیا کو دھمکانے والا قرار دیا ہے۔

انھوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں الزام لگایا کہ میڈیا کو دھمکانے اور اظہار کی آزادی پر پابندی لگانے کی کانگریس کی تاریخ رہی ہے۔

’نیوز براڈکاسٹرز اینڈ ڈیجیٹل ایسو سی ایشن‘(ای بی ڈی اے) نے اپوزیشن کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس نے ایک بیان میں اسے ایک خطرناک مثال قرار دیا اور کہا کہ میڈیا پر پابندی جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔

اس نے اپوزیشن اتحاد سے اسے فیصلہ واپس لینے کی اپیل کی اور کہا کہ یہ فیصلہ صحافیوں کو نشانہ بنانے، آزاد آوازوں کو دبانے اور میڈیا کی آواز پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔

'بائیکاٹ کی وجہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا'

اخبار ’دینک ہندوستان‘ کے ایڈیٹر پرتاپ سوم ونشی کا کہنا ہے کہ وہ اصولی طور پر میڈیا کے بائیکاٹ کے حامی نہیں ہیں۔ لیکن اپوزیشن نے بائیکاٹ کی جو وجہ بتائی ہے اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ان کے مطابق اس کا کہنا ہے کہ چوں کہ ان پروگراموں میں ہمیں اپنا موقف رکھنے کا موقع نہیں ملتا اور یہ لوگ نفرت پھیلاتے ہیں اس لیے ہم ان کے پروگراموں میں نہیں جائیں گے۔

تاہم وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ میڈیا کے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ اس کے کچھ اینکرز کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔

ان کے مطابق صحافیوں کو غیر جانب داری سے صحافت کرنی چاہیے۔ ان کو کسی ایک پارٹی کی حمایت یا مخالفت سے بچنا چاہیے۔

ان کے مطابق یہ انڈیا یا این ڈی اے یا سیاسی پارٹیوں کے غور و فکر کا نہیں بلکہ میڈیا کے غور و فکر کا مقام ہے کہ اس کے خلاف ایسا فیصلہ کیوں کیا گیا۔

ان کے بقول میڈیا اداروں کو اپنا احتساب کرنا ہو گا۔ صحافیوں کو اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر کچھ اینکرز نفرت انگیزی کے پروگرام کیوں کرتے ہیں۔

اخبار ’دی ہندو‘ کے سابق ایڈیٹر این رام کے مطابق اپوزیشن اتحاد کو نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے اور بائیکاٹ کے اعلان کے بجائے نرمی سے کہنا چاہیے کہ ہم تمھارے پروگراموں میں نہیں آسکتے۔

انھوں نے ’دی وائر‘ کے کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر کچھ اینکرز جانب داری سے کام لیتے ہیں تب بھی اس بنیاد پر ان کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ تاہم وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ میڈیا میں فرقہ واریت اور مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے لیکن یہ بالکل مختلف معاملہ ہے۔

ایجنڈا بی جے پی کے دفاتر میں طے کرنے کا الزام

بعض تجزیہ کاروں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ مین اسٹریم میڈیا میں پرائم ٹائم میں جو ڈبیٹ کرائی جاتی ہے اس کا ایجنڈا بی جے پی کے دفتر میں طے ہوتا ہے۔ بی جے پی اس کی تردید کرتی رہی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار پربھو چاولہ کہتے ہیں کہ صحافیوں کے لیے یہ بہت شرم کا مقام ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہو اور ان کی حمایت کرے۔ بقول ان کے اس سے صحافیوں کی غیر جانب داری اور ان کا اعتبار متاثر ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ جن صحافیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے وہ ملک کے بڑے نیوز چینلز سے وابستہ ہیں اور ان چینلز کو بڑے پیمانے پر لوگ دیکھتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت میں پریس کی آزادی پر سوال اٹھائے جاتے اور اظہار کی آزادی پر قدغن لگانے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ صحافیوں کی عالمی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق 2014 کے بعد بھارت 180 ملکوں کی فہرست میں 21 مقام گر کر 161 پر آ گیا ہے۔ اس وقت کئی صحافی سنگین دفعات کے تحت جیلوں میں بند ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG