رسائی کے لنکس

'پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ' کیس کی سماعت تین اکتوبر تک ملتوی


چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ وہ ازخود نوٹس کے اختیارات چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

پیر کو سپریم کورٹ میں 'پریکٹس اینڈ پروسیجر بل' کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے جس سے عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ ہو۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے معاملے پر فل کورٹ کی سماعت کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔ اس عدالتی کارروائی کو سرکاری ٹی وی پر لائیو نشر کیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت پیر کو 11 بج کر 40 منٹ پر شروع ہوئی تو فائز عیسیٰ کے بائیں جانب جسٹس اعجاز الاحسن اور دائیں جانب جسٹس سردار طارق بیٹھے ہوئے تھے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاخیر پر معذرت کی۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سماعت کا آغاز کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی براہِ راست دکھانے کی اجازت دی ہے۔

فل کورٹ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے ہیں جب کہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد وحید فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر درخواستوں کی سماعت پر پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ بنانے کی تین درخواستیں موصول ہوئی تھی۔ اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے۔ ہم نے فل کورٹ بنا دیا ہے۔ فل کورٹ میں سے کچھ ججوں نے کیس پہلے سنا ہے کچھ نے نہیں سنا۔

درخواست گزاروں کے وکیل خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے۔ پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی ۔

ایک دن قبل اتوار کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالتے ہی اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات سے متعلق ہے جسے پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع جاری کیا تھا۔

اتوار کو ہی ہدایات نامے میں شامل تھا کہ سپریم کورٹ کا 15 رکنی فل کورٹ بینچ پیر کو کیس کی سماعت پورا دن کرے گا۔

قبل ازیں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر پانچ سماعتیں ہوئی ہیں۔ 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پر حکم امتناع جاری ہوا تھا جب کہ دو اور آٹھ مئی اور پھر یکم اور آٹھ جون کو بھی کیس سماعت ہوئی۔

اس قانون کے تحت ازخود نوٹس لینے اور کسی بھی بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی کو دیا تھا۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ازخود نوٹس کے فیصلے سے متاثر ہونے والا فریق ایک ماہ میں اپیل کا حق دیا گیا ہے جب کہ متاثرہ فریق کو وکیل تبدیل کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔

مقامی میڈیا کے مطابق ایکٹ میں ون ٹائم پروژن کے تحت سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے علاوہ جہانگیر ترین کو اپیل کا حق مل گیا تھا۔ ازخود نوٹس کے مقدمات میں ماضی کے فیصلوں پر بھی اپیل کا حق دیا گیا ہے۔

جون میں سپریم کورٹ نے شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے فیصلے پر حکمِ امتناع کی درخواست پر سماعت کے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک ہر بینچ غیر قانونی ہے۔ وہ اس بینچ سے الگ ہو رہے ہیں۔

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل امتیاز صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا اپ اس پر مطمئن ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا اکیلا اخیتار چیف جسٹس کا ہو؟ اپ اس پر مطمئن نہیں کہ چیف جسٹس دو سینئر ججز کی مشاورت سے فیصلہ کریں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بے اخیتار نہیں کردیا گیا۔

'سپریم کورٹ کے فیصلوں کا نہیں بلکہ آئین کے تابع ہوں'

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے نہیں بلکہ آئین کے تابع ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ عوام کا منتخب ادارہ ہے۔ وہ مارشل لا دور کے عدالتی فیصلوں کے پابند نہیں ہیں، اگر کوئی اور ہے تو ہو۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ہے کیا؟

پاکستان کی پارلیمان نے اپریل 2023 میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری دی تھی۔

بل کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ہو گی۔

ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رُکنی بینچ تشکیل دے گی۔

آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججوں کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔

بل کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔

ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔

عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو محدود کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیرِِ سماعت ہے۔

XS
SM
MD
LG