رسائی کے لنکس

عدلیہ کے وقار کی بحالی اور زیرِ التوا مقدمات نئے چیف جسٹس کے لیے بڑے چیلنج


"آپ لوگ میرے فیصلوں میں قرآن کی آیات اور احادیث کو اپنی میڈیا رپورٹس میں شامل کیوں نہیں کرتے؟" جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ سوال قریب بیٹھے دو تین صحافیوں سے کیا تو ہم میں سے ہر ایک نے اس کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کی لیکن جسٹس فائز عیسیٰ مطمئن نہ ہوئے اور بولے "آپ فیصلوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پڑھیں گے تو کوئی شک نہ رہے گا۔"

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ان جملوں کا تبادلہ صحافیوں کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب کے دوران اس وقت ہوا جب جج صاحب وقت سے پہلے تشریف لے آئے تھے اور پریس روم میں آکر صحافیوں کے درمیان ہی بیٹھ گئے اور کافی دیر تک گپ شپ کرتے رہے۔

بعض لوگوں کے لیے متنازع اور بعض لوگوں کے پسندیدہ جسٹس فائز عیسیٰ پروٹوکول کے سخت خلاف ہیں اور وہ ججز کالونی میں اپنے سرکاری مکان سے تقریباً دو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے سپریم کورٹ آتے ہیں۔ انہوں نے کئی بار سڑک پر کسی قانون کی خلاف ورزی دیکھتے ہوئے وہیں احکامات دیے اور ان پر عمل درآمد بھی کروایا۔ چاہے وہ کسی رکنِ اسمبلی کی گاڑی پر لگے کالے شیشے ہوں یا ججز کالونی میں پولیس کے ایس پیز کی گاڑیاں، جسٹس فائز عیسیٰ نے ان کے خلاف ایکشن لیا اور ان کے چالان کروائے۔

عوامی انداز میں سڑک پر چلتے ہوئے جسٹس فائزعیسیٰ کی سیکیورٹی کا معاملہ ہمیشہ سے پولیس کے لیے مشکلات کا باعث بنتا رہا ہے اور اب چیف جسٹس بننے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ سیکیورٹی لیں گے یا نہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔

دو روز قبل ہی پولیس کی طرف سے جب بیان دیا گیا کہ نئے چیف جسٹس کو سیکیورٹی دے دی گئی تو اس بیان پر پولیس افسران کی طلبی ہوئی جس پر انہوں نے تحریری طور پر اہلکار تعینات نہ کرنے کا کہا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس بننے جارہے ہیں۔انہیں سپریم کورٹ کے ججز میں اختلافات کے تاثرکو ختم کرنا ،ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں عدلیہ کے وقار کو بحال کرنا اور 55 ہزار سے زائد زیرِ التوا مقدمات کو نمٹانے جیسے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا دور کیسا رہا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:08 0:00

بطور جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بہت سے اہم فیصلے دیے میں جن میں عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے کے لیے محترم کا لفظ استعمال نہ کرنے کی آبزرویشن شامل ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پبلک پارکوں کےاستعمال، ماحولیات، خواتین کے وراثتی حقوق اوراکیسویں آئینی ترمیم کیس میں سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو بھی غیر آئینی قرار دیا۔

تعلیم اور بطور وکیل

چھبیس اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہونے والے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ تحریک پاکستان کے صفِ اوّل کے رہنما قاضی محمد عیسٰی کے بیٹے اورپاکستان بننے سے پہلے قلات کے وزیراعظم قاضی جلال الدین کے پوتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آباؤ اجداد کا تعلق افغانستان کے علاقے قندھار سے تھا بعد میں وہ بلوچستان کے علاقے پشین میں آکر آباد ہوئے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی اور بعد میں کراچی گرامر اسکول سے اے لیول کرنے کے بعد قانون کی تعلیم حاصل کرنے لندن چلے گئے۔ 1985 میں وطن واپس آئے اور بلوچستان ہائی کورٹ کے وکیل کے طور پر کریئر شروع کیا۔

قاضی فائز بلوچستان ہائی کورٹ کے علاوہ ملک کی مختلف عدالتوں میں بھی پیش ہوتے رہے ۔ وہ بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ بار کے رکن تو رہے لیکن بار کی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا۔

قاضی فائز عیسیٰ عدالتوں میں مفادات عامہ کی آئینی درخواستیں بھی دائر کرتے رہے جب کہ بینکنگ، ماحولیات اور سول قوانین میں ان کی مہارت ہے۔ وہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے منصوبوں پر قانونی معاون رہے ہیں۔ ان منصوبوں میں کراچی ماس ٹرانزٹ، ہائی وے فنانسنگ اینڈ آپریشن، بلوچستان گراؤنڈ واٹر ریسورسز شامل ہیں۔

بطور کامیاب وکیل ان کا چیمبر بلوچستان میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والا چیمبر تھا۔

بلوچستان ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی سے پہلے فائز عیسیٰ انگریزی اخبارات میں آئین و قانون، تاریخ اور ماحولیات پرمضامین بھی لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ دو کتابوں 'ماس میڈیا لاز اینڈ ریگولیشن' کے مشترکہ مصنف اور 'بلوچستان کیس اینڈ ڈیمانڈ' کے مصنف بھی ہیں۔

فائز عیسیٰ کی بطور جج تعیناتی اور میمو کمیشن

قاضی فائز عیسیٰ بطور وکیل ان ججوں کے سامنے پیش نہیں ہوئے جنہوں نے عبوری آئینی حکم (پی سی او )کے تحت حلف اُٹھایا تھا۔

سپریم کورٹ کے 31جولائی 2009 کے فیصلے کے بعد جس میں عدالت نےتین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دیا، اس کی وجہ سے بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام ججز مستعفی ہوگئے تھے۔ان حالات میں بطور سینئر وکیل فائز عیسٰی کو بلوچستان ہائی کورٹ میں بطور جج تعینات کیا گیا اور انہوں نے پانچ اگست 2009 کو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کا عہدہ سنبھالا۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام لائم لائیٹ میں سب سے پہلے اس وقت آیا جب انہیں اسلام آباد میں میمو کمیشن کی سربراہی کے لیے چنا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کےا حاطے میں ہی جسٹس فائز عیسیٰ نے میمو کمیشن کی کارروائی شروع کی۔ اس کمیشن کی کارروائی کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ نے فریقین سے سخت سوالات کیے۔ پاکستان فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا بھی میمو کمیشن کے سامنے پیش ہوئے ۔

میمو گیٹ کیس اس وقت سامنے آیا تھا جب امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی نے مئی 2011 میں امریکہ کے ایک اعلیٰ افسر کو متنازع خط تحریر کیا تھا، جس میں پاکستان میں قائم اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت اور فوج کے درمیان جاری کشیدگی کے حوالے سے بتایا گیا تھا۔

یہ کیس امریکی نژاد تاجر منظور اعجاز سامنے لائے تھے۔اس معاملے کی تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے 2011 میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس کے باعث حسین حقانی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپنی انکوائری رپورٹ میں متنازع خط تحریر کرنے کےمعاملے میں حسین حقانی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور کہا تھا کہ سابق سفیر ملک کے ساتھ مخلص نہیں۔

اس دوران فائز عیسیٰ کے سخت سوالات اور عدالتی کارروائی چلانے کے انداز پر ایک دن ایک سیکیورٹی ادارے کا اہلکار بے ساختہ بولا کہ یار یہ جسٹس فائز عیسیٰ نہیں بلکہ فائر عیسیٰ لگ رہے ہیں۔

فیض آباد دھرنا کیس

سال 2017 میں راول پنڈی اور اسلام آباد کے جنکشن فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کو سپریم کورٹ نے سال 2019 میں نمٹاتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

اس دھرنے کے دوران 22 روز تک فیض آباد کے مقام کو بند کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے دونوں شہروں کے درمیان ٹریفک اتنے دنوں تک معطل رہی اور لاکھوں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دھرنے کو ختم کرنے کے لیے پولیس اور فرنٹیر کور (ایف سی) نے ایکشن لیا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس دھرنے کے شرکا پولیس پر حاوی دکھائی دیے اور 100 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے۔

بعدازاں ایک معاہدےکے مطابق اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کے مستعفی ہونے کے بعد اس وقت کے ڈی جی سی میجرجنرل فیض حمید کے دستخط سے ایک معاہدہ سامنے آیا ۔دھرنا ختم ہوا اور دھرنے کے خاتمے پر ڈی جی رینجرز پنجاب کی طرف سےدھرنے کے شرکا کو نقد رقوم لفافوں میں دینے کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔

بائیس نومبر 2018 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اس کیس کے فیصلے کو محفوظ کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلانے اور ان کی وکالت کرنے والوں کی نشاندہی کریں جب کہ وزارت دفاع کے توسط سے تمام مسلح افواج کے سربراہان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے ادارے میں موجود ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل پر بھی تبصرہ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ فوج کسی مخصوص سیاسی جماعت یا اس کے دھڑے یا پھر ایک سیاسی شخص کی حمایت نہ کرے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ خیال کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ان معاملات میں ملوث ہے جن میں ایک سیکیورٹی ایجنسی کو شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، اس معاملے کو بھی ختم یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس فیصلے کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے نظرثانی کی درخواستیں بھی دائر کی گئیں لیکن انہیں سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا اور یہ فیصلہ آج بھی موجود ہے۔

فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف مختلف وکلا تنظیمیں بھی سامنے آئیں۔ پنجاب بار کونسل نے جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف مظاہرے شروع کیے اور مطالبہ کیا کہ عدالتی فیصلے میں مسلح افواج اور ملک کی سب سے بڑی سیکیورٹی ایجنسی آئی ایس آئی کے خلاف تنقید پر انہیں جج کے عہدے سے برطرف کیا جائے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کرپشن اور ٹیکس معلومات چھپانے پرصدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا تھا۔ مئی 2019 سے جون 2020 تک یہ معاملہ تقریباً 13 ماہ تک چلا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

یہ تحقیقات شہزاد اکبر کی سربراہی میں بننے والے 'ایسٹ ریکوری یونٹ' میں ایک مقامی صحافی کی درخواست پر شروع ہوئیں تھیں۔

سات اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

انیس جون 2020 کو سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست منظور کرلی تھی۔عدالت نے اپنے حکم میں جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے آف شور اثاثوں کا معاملہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کو بھیجنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 19 جون 2020 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔بعدازاں 29 اپریل 2021 کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مزید کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس وقت مرکز میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت تھی جس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دوسری مرتبہ نظر ثانی کی درخواست (کیوریٹو ریویو) دائر کیا تھا۔بعدازاں 2022 میں اتحادی حکومت نے مذکورہ درخواست واپس لینے کے لیے درخواست دائر کی جسے جولائی 2023 میں عدالت عظمیٰ نے واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں ججز کی تقسیم

سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کے چیف جسٹس بننے کے بعد ابتدا میں جسٹس فائز عیسیٰ مختلف کیسز سنتے رہے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ میں تقسیم کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ اور چند مخصوص ججز کو بہت کم کیسز سننے کے لیے دیے گئے اور ان سے صرف چیمبر ورک لیا جاتا رہا۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہونے کے باوجود جسٹس فائز عیسیٰ ایک عرصے سے کسی بھی اہم بینچ میں شامل نہیں کیے گئے۔ اس معاملے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ ان کے اختلافات کی وجہ سمجھا جاتا تھا۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں بھی جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس فائز کے خلاف ہی فیصلہ دیا تھا اور جب نظرثانی میں اکثریتی ججز نے جسٹس فائز کے خلاف تمام کارروائی ختم کرنے کا فیصلہ دیا تو اس وقت بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس فیصلے سے اختلاف ہی کیا تھا۔

حالیہ عرصے میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے بھی جسٹس فائز عیسیٰ کا عمر عطا بندیال سے اختلاف رہا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے خود کو سماعت سے الگ کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ جسٹس سردار طارق بھی بینچ سے الگ ہو گئے تھے۔

سپریم کورٹ میں حالیہ تقسیم کی وجہ سے مخصوص ججز کو بینچ میں بٹھائے جانے اور ان سے مطلوبہ فیصلے حاصل کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

پی ڈی ایم کی سابق حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی خوش دامن کی ایک مبینہ آڈیو سمیت سپریم کورٹ کے ایک اور جج کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کے لیے جب فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن بنایا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے اس کمیشن پر بھی حکم امتناع جاری کیا تھا اور اسے کوئی کارروائی نہیں کرنے دی تھی۔

فورم

XS
SM
MD
LG