رسائی کے لنکس

جسٹس فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو ایک اور خط، ججوں کے تقرر پر اعتراض


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس،چیئرمین جوڈیشل کمیشن اور اس کمیشن کے ارکان کو ایک اور خط ارسال کر دیا ہے، جس میں انہوں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز میں سے کسی کو سپریم کورٹ کا جج تعینات نہ کیے جانے پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔

خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سینئر ججز کو نظر انداز کرنے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی روایت ماضی میں سپریم کورٹ کے بعض ججز نے متعارف کرائی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس خط سے قبل بھی ماضی میں کئی خطوط چیف جسٹس کو ارسال کر چکے ہیں، جن میں انہوں نے عدلیہ کے مختلف انتظامی امور پر اعتراضات کیے تھے۔

سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعتراضات دور نہ کیے جانے کی وجہ سے اب وہ کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ بعض وکلا کے خیال میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدلیہ کے اندرونی معاملات کو عوام کے سامنے لانے سے عدلیہ میں تفریق پیدا ہوگی جو عدلیہ کے لیے نقصان دہ ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے ایک ہفتے میں یہ دوسرا خط ہے جو انہوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو لکھا ہے۔ اس سے قبل لکھے جانے والے خط میں انہوں نے سابق ججوں کو سرکاری خزانے سے گاڑیاں فراہم کرنے کی تجویز کو نامناسب اور" باعثِ شرم" قرار دیا تھا۔

حالیہ خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جونیئر ججز کو اعلیٰ عدالتوں میں تعینات کرنے کے حوالے سےتحریر کیا ہے کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سینئر ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی طویل روایت رہی ہے۔ سینئرز کو نظر انداز کرکے جونیئر ججوں کی تعیناتی کی روایت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اورسابق چیف جسٹس گلزار احمد نے متعارف کرائی تھی۔

’اعلیٰ عدلیہ کے جج آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھاتے ہیں‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ آئین لوگوں کو جوڑ کر رکھتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جب بھی آئین کی خلاف ورزی کی گئی اس کا نقصان ہوا۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھاتے ہیں۔ حلف کا اہم تقاضا ہے کہ آئینی بنیادی حقوق کا تحفظ ہو۔ انہیں روندا نہ جا سکے۔ عدلیہ پر عوام کا اعتماد یقینی بنانا ایک لازم امر ہے۔ عوامی اعتماد کے بغیر عدالتی فیصلے اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کرتے وقت دیکھا جائے کہ وہ غیر آئینی اقدام کی مزاحمت، کالعدم قرار دینےکی صلاحیت رکھتا ہے۔

خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا ہے کہ جسٹس نسیم حسن کی ٹی وی پر غلطیوں کے اعتراف کو دیر آید درست آید کہا جا سکتا ہے۔ کیا جسٹس نسیم حسن کا اعتراف سابق وزیرِ اعظم کی زندگی واپس لا سکتا ہے جس کو ان کے احکامات پر موت دی گئی تھی؟۔

انہوں نے کہ لکھا کہ حالیہ عرصے میں تاثر یہ ہے کہ بیرونی عوامل کے باعث فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس کو جج بنانا ہے اورکس کو جج نہیں بننے دینا۔ عدلیہ میں تقرری کے بارے میں اس تاثر کو دور کیا جانا چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے عمل کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ فردِ واحد کی جانب سے ایک نام دینا، تقرر کے لیے ووٹنگ پر مجبور کرنا، ایک ووٹ سےجج بن جانا آئین کے مطابق نہیں ہے۔

خط میں چیف جسٹس کی تعریف

انہوں نے خط میں چیف جسٹس کی تعریف بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کمیشن کے پہلے اجلاس کا تجربہ بہت اچھا تھا۔ اجلاس ماضی کے اجلاسوں سے بہتر تھاکیوں کہ اختلاف کا بیج بونے کی روایت سے فاصلہ رکھا کیا گیا تھا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ آئندہ اجلاس میں بھی ججز کی تقرری کے حوالے سے پائی جانے والی تشویش کو دور کیا جائے گا۔

قبل ازیں بھیجے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق ججوں کو سرکاری خزانے سے گاڑیاں فراہم کرنے کی تجویز کو "نامناسب اور باعثِ شرم" قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اس تجویز کا مطلب ہو گا کہ جج اپنے عہدے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جو ججوں کے ضابطۂ اخلاق کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں انہوں نے لکھاا کہ ریٹائرڈ ججز کے لیے مراعات کی تجویز دینا جج کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ عدالتی ضابطۂ اخلاق اور حلف کے تحت جج اپنی مراعات کے لیے عہدے کا استعمال نہیں کر سکتا۔

انہوں نے رجسٹرار سپریم کورٹ جواد پال کے کنڈکٹ پر اعتراض کرتے ہوئے تحریر کیا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ جواد پال بھی ان معاملات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ ان کی نظر عوامی وسائل پر ہے۔

’انتظامی معاملات پر کسی جج کا بات کرنا کوئی غیرمعمولی معاملہ نہیں‘

جسٹس فائز عیسیٰ کے خطوط لکھنے پر سپریم کورٹ بار کے سابق صدر سابق سینیٹر امان اللہ کنرانی نے کہا کہ انتظامی معاملات میں جج کی طرف سے بات کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سینئر ترین جج ہیں۔ ان کی باتوں کو نظر انداز کرنا درست نہیں۔

ججز کی تعیناتی پر اعتراض کے خط کے بارے میں امان اللہ کنرانی نے کہا کہ 19 ویں ترمیم کے بعد ججز کی تعیناتی کے لیے جو اختیارات دیے گئے ہیں اس کے بعد سے اب تک کوئی قواعد نہیں بنائے گئے۔ 2010 سے اب تک پسندیدہ افراد کو جج بنایا جاتا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے جس سے عدلیہ متنازع ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی فورم موجود نہیں ہے اور صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی بات کر رہے ہیں۔ ان کی بات پر بھی توجہ نہیں دی جا رہی۔ اسی وجہ سے جسٹس قاجی فائز عیسیٰ شفافیت اور عوام کے سامنے ریکارڈ پر لانے کے لیے ان خطوط کو پبلک کر رہے ہیں۔

’عدلیہ کا کوئی بھی معاملہ خفیہ نہیں ہونا چاہیے‘

سینئر وکیل حامد خان نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط کی وکلا بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ ججز کی تعیناتی کے لیے چھٹیوں کے دوران اجلاس بلانا بد نیتی ہے۔ اس اجلاس کو عام دنوں میں بلایا جانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ قواعد بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا البتہ اب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

حامد خان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا کوئی بھی معاملہ خفیہ نہیں ہونا چاہیے۔ عدلیہ میں شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ ہر بات سامنے آئے۔ اسی وجہ سے وکلا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط کی حمایت کرتے ہیں۔

سابق ججز کو گاڑیاں دینے کے معاملے پر حامد خان نے کہا کہ غیرضروری مراعات دینے سے بدعنوانی جنم لیتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اگر جواب نہیں دیا جاتا۔ان کی کہی ہوئی بات کا جواب جب نہیں دیا جائے گا تو پھر وہ اپنی بات کو عوام میں ہی لے کر جائیں گے۔

’جسٹس قاضی فائز عیسی کا خط کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے‘

تاہم اس بارے میں وکیل اظہرصدیق متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے خط لکھنا اور اسے عوام کے سامنے لانا عدلیہ میں تفریق کا باعث بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف سے ایسے خط لکھنا جوڈیشل کمیشن کے کوڈ آف کنڈکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اگر انہیں شکایات ہیں تو کمیشن میں بیٹھ کر بات کریں۔

اظہر صدیق کا مزید کہنا تھا کہ ان کے تمام تحفظات کا فیصلہ اکثریتی ججز نے کرنا ہے۔ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کوئی اعتراض ہے تو وہ عوام کے سامنے بات کرنے کے بجائے جوڈیشل کمیشن میں سامنے بیٹھ کرکریں۔

جونیئر ججز کی تعیناتی کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعتراض پر انہوں نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ جونیئر جج کو ترقی نہیں دی جاسکتی؟

انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو اعتراض ہے تو اس بارے میں پارلیمان میں جائے اور وہاں پر ترمیم کرائی جائے۔ جب آئین میں لکھا ہے کہ صرف چیف جسٹس کی تعیناتی سینئر موسٹ جج کی ہوگی باقی آئین میں لکھا ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے ترقی دینی ہے، اگر کمیشن کے ارکان مناسب سمجھتے ہیں تو کسی جج کو ترقی دیتے ہیں، لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایسے خط لکھنا درست اقدام نہیں ہے۔

خطوط کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ میں بہت زیادہ تفریق ہے اور ان کی کسی بات کو اہمیت نہیں دی جارہی جب کہ در حقیقت ایسا نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG