امریکہ کے شہر نیویارک میں رواں ہفتے ماحولیاتی تبدیلی پر بین الاقوامی اجلاس ہونے جا رہا ہے جس سے قبل ہزاروں مظاہرین نے ایک بڑے مارچ میں حصہ لیا ہے اور آلودگی کا باعث بننے والے فاسل فیول پر انحصار کم سے کم کرنے پر زور دیا ہے۔
منتظمین کے مطابق اتوار کو لگ بھگ 75 ہزار افراد نے نیویارک کی سڑکوں پر مارچ کیا۔ مظاہرین نے زور دیا کہ انسانی زندگی کا دارومدار توانائی پیدا کرنے میں فاسل فیول کے استعمال کو ختم کرنے پر ہے۔
بدھ کو اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والے اجلاس میں سیاسی و کاروباری رہنما اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس سے ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے پر اپنی آرا کا اظہار کریں گے۔ لیکن دی مارچ ٹو اینڈ فاسل فیولز کے نام سے ریلی کے شرکاکا کہنا تھا کہ یہ کافی نہیں ہوگا۔
مظاہرین نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن پر زور دیا کہ وہ تیل اور گیس کے نئے منصوبوں کی منظوری دینا بند کریں۔ موجودہ منصوبوں کو ختم کیا جائے اور بڑے ایگزیکٹو اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے موسمیاتی ایمرجنسی کا اعلان کریں۔
آب و ہوا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے دنیا کا ہر خطہ متاثر ہو رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کی زد میں جنوبی ایشیا بھی ہے۔
گزشتہ سال پاکستان کے بدترین سیلاب کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی کو قرار دیا گیا تھا جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں غیر معمولی بارش کو بھی ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ سمجھا جار ہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق احتجاجی گروپ ’فرائیڈیز فار فیوچر" کی بروکلین سے تعلق رکھنے والی نمائندہ 17 سالہ ایما بوریٹا نے کہا کہ ہم عوام کی طاقت رکھتے ہیں جو طاقت آپ کو الیکشن جیتنے کے لیے درکار ہے۔
"اگر آپ 2024 میں جیتنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ نہیں چاہتے کہ میری نسل کا خون آپ کےہاتھ پر ہو تو فا سل فیول ختم کر دیں۔"
امریکی ایوان نمائندگان کی رکن الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز اور اداکار سوسن سارینڈن، ایتھن ہاک، ایڈورڈ نورٹن، کیرا سیڈج وِک اور کیون بیکن جیسے سیاست دان مارچ میں شامل تھے۔
اتوار کا مارچ نیویارک کے کلائمیٹ ویک کی شروعات ہے۔ شہر کے انٹر ٹینمنٹ کے مرکز براڈوے پر جمع مظاہرین نے ایک بہتر مستقبل کا مطالبہ کیا ۔
تاہم اس ہفتے ہونے والے اجلاس میں کئی ایسے ممالک کے رہنما، جو سب سے زیادہ گرمی کو معلق کرنے والی کاربن آلودگی کا سبب بنتے ہیں، شرکت نہیں کریں گے۔
کانگریس کی رکن اوکاسیو کورٹیز نے کہا کہ آج کے مارچ میں پوری دنیا سے لوگ سڑکوں پر موجود ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ وہ چیز جو ہمیں مار رہی ہے اس کو چھوڑ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ پیغام دینا ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اب سے 30، 40، 50 سال بعد اس سیارے پر رہ رہے ہوں گے وہ (اپنے مطالبے کے جواب میں ) نہ نہیں سننا چاہتے۔
امریکن یونیورسٹی کی ماہر عمرانیات ڈانا فشر، جو ماحولیاتی تحریکوں کا مطالعہ کرتی ہیں اور مارچ کے شرکا کا سروے کر رہی تھیں، نے ’اے پی‘ کو بتایا کہ اتوار کے مارچ میں شامل مظاہرین میں 15 فی صد وہ لوگ تھے جو پہلی بار ایسے مظاہرے میں شریک ہوئے اور ان میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔
سروے میں شامل لوگوں میں سے 86 فی صد نے حال ہی میں شدید گرمی، 21 فی صد نے سیلاب اور 18 فی صد نے شدید خشک سالی کا سامنا کیا۔
انہوں نے زیادہ تر نے غم و غصے کا اظہار کیا جب کہ اس سال زمین کا گرم ترین موسم گرما ریکارڈ کیا گیا ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق ماحولیاتی کارکنوں کا اندازہ ہے کہ اب سے 2050 تک تیل اور گیس کے لیے دنیا کی منصوبہ بند ڈرلنگ کا تقریباً ایک تہائی حصہ امریکی مفادات کے تحت ہوگا۔
گذشتہ 100 برس کے دوران امریکہ نے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں گرمی کو ٹریپ یعنی پھنسانے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ فضا میں ڈالی ہے لیکن اب چین سالانہ بنیادوں پر زیادہ کاربن آلودگی خارج کرتا ہے۔
اس خبر میں شامل زیادہ تر معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔