رسائی کے لنکس

کرونا کی وبا کے دوران 'قاتل بھڑوں' کی یلغار


Murder hornet
Murder hornet

کرونا وائرس نے جس طرح دنیا بھر میں لوگوں کو آزار میں مبتلا کیا ہے، وہ باقی دکھ بھول گئے ہیں۔ مگر انہی دنوں ایک اور بلا نے امریکہ کا رخ کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی اور سرخ رنگ کی بھڑ ہے، جو کاٹ لے تو انسان مر بھی سکتا ہے۔

کرونا کی وبا میں بھڑوں کی یلغار
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:05 0:00

دو انچ سے بھی بڑی یہ آفت شہد کی مکھیوں کی دشمن ہے اور انہیں ان کے چھتوں میں ہی ہلاک کر دیتی ہے۔ یہ بھڑیں جنہیں انگریزی میں ہارنیٹ کہا جاتا ہے جاپان، شمالی اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں پائی جاتی ہیں اور پہلی مرتبہ انہوں نے امریکہ کا رخ کیا ہے۔

Dr. Saleem Ali
Dr. Saleem Ali

اس وقت ان کا حملہ امریکی ریاست واشنگٹن پر ہے۔ اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق، جاپان میں اسے 'ویسپا مینڈرینیا' کہا جاتا ہے جو ہر سال پچاس لوگوں کی جان لے جاتی ہے۔ اب یہ امریکہ میں شہد کی مکھیوں کے درپے ہے، جن کی آبادی پہلے ہی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسی لئے اسے مرڈر ہارنیٹ یا قاتل بھڑوں کا نام دیا گیا ہے۔

ڈیلا وئیر یو نیورسٹی میں توانائی اور ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر سلیم علی کہتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں ماحولیات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور پودوں کی پولینیشن میں بہت مدد دیتی ہیں، اس لئے ان کا تحفظ بہت ضروری ہے۔

ریاست واشنگٹن کے محکمہ زراعت کے مطابق، یہ بھڑیں پہلے پہل دسمبر میں نظر آئی تھیں۔ سائنسدانوں کے مطابق، ان کی زندگی اپریل کے مہینے میں شروع ہوتی ہے جب ملکہ بھڑ نیند سے جاگتی ہے اور پھر زمین کے اندر ہی گھروندے بنا کر اپنی آبادی بڑھاتی ہے۔

لیکن یونیورسٹی آف واشنگٹن کے محقق کہتے ہیں کہ یہ بھڑیں گرمیوں میں زیادہ خطرناک ہو جاتی ہیں، جب یہ شہد کی مکھیوں پر حملہ کرتی ہیں صرف چند بھڑیں منٹوں میں پورا چھتہ برباد کر دیتی ہیں اور شہد کی مکھیوں کے انڈے بچے سب کھا جاتی ہیں۔

شہد کی مکھیوں کی افادیت بیان کرتے ہوئے، ڈاکٹر سلیم علی نے بتایا کہ کیلیفورنیا میں بادام کی فصل پر شہد کی مکھیوں کے چھتے خود لگائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد نوے ہزار تک ہوتی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ یہ مکھیاں بادام کی فصل میں زرخیزی لائیں۔ وہ کہتے ہیں اگر مکھیاں پولینیشن نہ کریں تو بادام پیدا نہیں ہو سکتے، اور یوں، زرعی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر سلیم علی کہتے ہیں کہ ہارنیٹ (بڑی بھڑیں) ابھی بہت بڑی تعداد میں نہیں ہیں، جنھیں ختم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بھڑیں زمین کے اندر سرنگیں بنا کر اس میں رہتی ہیں، چنانچہ انہیں تلاش کر کے ختم کرنا ہوگا، کیونکہ اگر یہ ہارنیٹ پھیل گئے تو مسئلہ سنگین ہوجائے ہو گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دو انچ کی مخلوق اتنی بڑی تعداد میں ایشیا سے امریکہ پہنچی کیسے؟

اس بارے میں ڈاکٹر علی نے بتایا کہ یہ ایک ملک سے دوسرے ملک آنے والے کارگو میں چھپ کر سفر کرتے ہیں، چناچہ جب بڑے پیمانے پر سامان ایک ملک سے دوسرے ملک آتا ہے تو اس کارگو کا معائنہ بہت ضروری ہے۔

وہ کہتے ہیں امریکہ میں اس بارے میں زیادہ احتیاط نہیں کی جاتی، اس لئے یہاں درختوں کی کئی وبائیں پھیلی ہیں۔ جھیلوں میں مچھلیاں خراب ہوئی ہیں اور یہ تمام خرابی کارگو میں آنے والے خطرناک اجسام ہی سے پیدا ہوئی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر سلیم علی کہتے ہیں کہ کرونا سے بچاؤ میں قرنطینہ سے مدد ملی ہے اور اگر ٹڈی دل اور قاتل ہارنیٹ کی یلغار سے بچنا ہے تو کارگو کو بھی کمپنیوں کے حوالے کرنے سے پہلے قرنطینہ میں رکھنا ہو گا۔

XS
SM
MD
LG