واشنگٹن —
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ایسے افراد بھی جو شہد بنانے کی صنعت سے وابستہ ہیں، اس رجحان سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
ٹیرنس اِنگرام خود کو فطرت پسند قرار دیتے ہیں اور شہد کی مکھیوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں قدرت کے بڑے معجزوں میں سے ایک ہیں۔
ٹیرنس اِنگرام 1954ء سے ریاست الینوائے میں شہد بنانے کے کاروبار سے منسلک ہیں اور اب تک شہد کی مکھیوں کے ہزاروں چھتوں کی ذمہ داری سنبھال چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’ہمارے پاس ایک وقت میں شہد کی مکھیوں کے 250 چھتے تھے۔ اور ہم ہر سال پانچ، چھ ٹن شہد بآسانی بیچ لیتے تھے۔‘
لیکن اب اس رجحان میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ٹیرنس اِنگرام کہتے ہیں کہ، ’اب ہم سالانہ صرف چار ٹن شہد ہی بمشکل بیچ پاتے ہیں۔‘ اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ 73 سالہ ٹیرنس اِنگرام گزرے وقت کے ساتھ سست پڑ گئے ہیں بلکہ اب ان کے پاس پہلے کے مقابلے میں شہد کی مکھیوں کی تعداد خاصی کم ہو چکی ہے۔
ٹیرنس اِنگرام اس کا ذمہ دار اپنے علاقے میں موجود دیگر کھیتوں میں استعمال کیے جانے والی کیڑے مار ادویات کو ٹھہراتے ہیں جس کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کی نسل پر بھی نمایاں فرق پڑ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں میں کمی کا رجحان 1996 سے شروع ہوا۔ ان کے الفاظ، ’اُس برس گرمیوں میں، جہازوں سے سپرے کیا جاتا تھا اور سال کے آخر تک میرے پاس شہد کی مکھیوں کے صرف 250 چھتے بچ گئے تھے۔‘
پرڈو یونیورسٹی کے پروفیسر کرسچن رُوپکے ایک تحقیق دان ہیں اور ٹیرنس اِنگرام کی بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’اس طرح کی رپورٹس ماضی میں یورپ سے بھی ملی تھیں۔ اس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ کونسے عوامل ہیں جو شہد کی مکھیوں کی کمی کا سبب بن رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کیڑے مار ادویات میں موجود کیمیائی مادے شہد کی مکھیوں پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔‘
30 برس قبل امریکہ میں موجود شہد کی مکھیوں کی تقریباً 40 لاکھ کالونیاں موجود تھیں۔ لیکن اب ان کی تعداد گھٹ کر صرف 20 لاکھ تک رہ گئی ہے۔ تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ کیڑے مار ادویات ہیں۔
رواں برس دسمبر میں یورپی یونین کی جانب سے ایسی کیڑے مار ادویات کے استعمال پر پابندی کا ارادہ سامنے آیا ہے جو تحقیق دانوں کے مطابق شہد کی مکھیوں کے خاتمے کا سبب بن رہے تھے۔ لیکن ابھی امریکہ میں اس طرز کا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا۔
ٹیرنس اِنگرام خود کو فطرت پسند قرار دیتے ہیں اور شہد کی مکھیوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں قدرت کے بڑے معجزوں میں سے ایک ہیں۔
ٹیرنس اِنگرام 1954ء سے ریاست الینوائے میں شہد بنانے کے کاروبار سے منسلک ہیں اور اب تک شہد کی مکھیوں کے ہزاروں چھتوں کی ذمہ داری سنبھال چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’ہمارے پاس ایک وقت میں شہد کی مکھیوں کے 250 چھتے تھے۔ اور ہم ہر سال پانچ، چھ ٹن شہد بآسانی بیچ لیتے تھے۔‘
لیکن اب اس رجحان میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ٹیرنس اِنگرام کہتے ہیں کہ، ’اب ہم سالانہ صرف چار ٹن شہد ہی بمشکل بیچ پاتے ہیں۔‘ اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ 73 سالہ ٹیرنس اِنگرام گزرے وقت کے ساتھ سست پڑ گئے ہیں بلکہ اب ان کے پاس پہلے کے مقابلے میں شہد کی مکھیوں کی تعداد خاصی کم ہو چکی ہے۔
ٹیرنس اِنگرام اس کا ذمہ دار اپنے علاقے میں موجود دیگر کھیتوں میں استعمال کیے جانے والی کیڑے مار ادویات کو ٹھہراتے ہیں جس کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کی نسل پر بھی نمایاں فرق پڑ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں میں کمی کا رجحان 1996 سے شروع ہوا۔ ان کے الفاظ، ’اُس برس گرمیوں میں، جہازوں سے سپرے کیا جاتا تھا اور سال کے آخر تک میرے پاس شہد کی مکھیوں کے صرف 250 چھتے بچ گئے تھے۔‘
پرڈو یونیورسٹی کے پروفیسر کرسچن رُوپکے ایک تحقیق دان ہیں اور ٹیرنس اِنگرام کی بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’اس طرح کی رپورٹس ماضی میں یورپ سے بھی ملی تھیں۔ اس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ کونسے عوامل ہیں جو شہد کی مکھیوں کی کمی کا سبب بن رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کیڑے مار ادویات میں موجود کیمیائی مادے شہد کی مکھیوں پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔‘
30 برس قبل امریکہ میں موجود شہد کی مکھیوں کی تقریباً 40 لاکھ کالونیاں موجود تھیں۔ لیکن اب ان کی تعداد گھٹ کر صرف 20 لاکھ تک رہ گئی ہے۔ تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ کیڑے مار ادویات ہیں۔
رواں برس دسمبر میں یورپی یونین کی جانب سے ایسی کیڑے مار ادویات کے استعمال پر پابندی کا ارادہ سامنے آیا ہے جو تحقیق دانوں کے مطابق شہد کی مکھیوں کے خاتمے کا سبب بن رہے تھے۔ لیکن ابھی امریکہ میں اس طرز کا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا۔