ستر کی دہائی تک پاکستان میں 'مگس بانی' (شہد کی مکھیاں پالنے) کا رجحان کم تھا۔ تاہم، اسی کی دہائی میں افغان جنگ کے باعث لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تو صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مگس بانی کے رجحان میں اضافہ ہوا۔
افغانستان سے پاکستان نقل مکانی کرنے والے افغان مہاجرین کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے مگس بانی کی تربیت دی اور یوں مگس بانی نے پاکستان میں صنعت کا درجہ اختیار کر لیا۔ جس کے بعد مقامی افراد بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔
جنت اللہ کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتيا سے ہے۔ ان کے خاندان نے 40 سال پہلے افغانستان سے پاکستان نقل مکانی کی۔ گو کہ ان کا خاندان اب واپس اپنے آبائی وطن جا چکا ہے۔ ليکن مگس بانی کے کاروبار کی وجہ سے جنت اللہ 9 ماہ پاکستان ميں گزارتے ہيں۔
جنت اللہ کے مطابق، ايک تو افغانستان ميں سیکورٹی کے حالات ٹھيک نہیں اور وہاں بیری کے درخت بھی کم ہیں، جس کی وجہ سے انہیں پاکستان آنا پڑتا ہے۔
مگس بانی کے پیشے سے منسلک جنت اللہ کا کہنا ہے کہ ان کا فارم خیبر پختونخوا کے ضلع کرک ميں ہے، جہاں بيری کے درخت کثرت سے پائے جاتے ہيں۔
جنت اللہ کا کہنا ہے کہ بيری کا شہد نہ صرف اچھا منافع ديتا ہے بلکہ اس کی مانگ عرب ممالک ميں بھی بہت زيادہ ہے۔
پاکستان ميں 9 ماہ قيام کے بعد جنت اللہ شہد کی مکھيوں کو واپس افغانستان لے جاتے ہيں۔
انکے مطابق، شہد کی مکھی زيادہ گرمی برداشت نہیں کر سکتی۔ اس لیے وہ انہيں واپس افغانستان لے جاتے ہيں، جہاں درجہ حرارت نسبتاً کم ہوتا ہے۔
جنت اللہ کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر کسٹم اہلکاروں کے رویے سے انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول، رکاوٹوں کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں شہد کی مکھیاں مر جاتی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ آمد و رفت آسان کرنے کے عوض یہاں رشوت بھی وصول کی جاتی ہے۔
جنت اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ پاکستان سے کچھ بھی افغانستان لے کر نہیں جاتے۔ وہ جو بھی شہد بناتے ہيں، وہ مقامی منڈی ميں ہی فروخت کردیتے ہیں، جس کا سارا فائدہ پاکستان کو ہی ہو رہا ہے۔ لہذٰا، کسٹم اہلکاروں کا رويہ انکی سمجھ سے بالاتر ہے۔
انہوں نے مزيد بتايا کہ افغانستان کی شہد کی مکھياں پاکستانی مکھيوں سے زيادہ اچھا شہد بناتی ہيں کيوں کہ وہ ٹھنڈے علاقوں سے تازہ دم ہو کر آتی ہيں۔
صوبہ خيبر پختونخوا ميں مگس بانی کے 6000 رجسٹرڈ فارمز ہيں۔ جن سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ اگر شہد کی بات کی جائے تو دنيا بھر ميں بيری کا شہد بہت مشہور ہے۔
دنيا بھر ميں يمن کے بير کے شہد کو زيادہ پسند کيا جاتا ہے۔ ليکن وہاں امن و امان کی خراب صورتِ حال کے باعث عرب ممالک ميں پاکستانی شہد کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
صوبہ خيبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع بہترين بيری کا شہد پيدا کرنے کے لیے مشہور ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ‘آل پاکستان بی کيپنگ اينڈ ہنی ٹريڈرز ايسوسی ايشن’ کے سينئر نائب صدر گل بادشاہ نے بتايا کہ مگس بانی کے شعبے سے تقريبا 10 لاکھ افراد وابستہ ہيں۔
انہوں نے بتايا کہ ايک محتاط اندازے کے مطابق، پاکستان 25 سے 30 ہزار ٹن شہد برآمد کرتا ہے۔ ان ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کويت اور قطر قابل ذکر ہيں۔
گل بادشاہ نے بتايا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مقامی سطح پر شہد کی پیدوار بھی کم ہو رہی ہے۔ ان کے بقول، شہد کی مکھیوں کی خوراک پھول، درخت اور سرسبز باغات میں ہوتی ہے۔ لیکن جنگلات کی کٹائی، بے ہنگم تعمیرات اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث شہد کی پیدوار کم ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر يونس ‘زرعی تحقيقاتی ادارہ ترناب فارم’ ميں بطور سينئر ريسرچ آفيسر حياتيات تعينات ہيں۔ وہ گل بادشاہ سے اتفاق کرتے ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر یونس نے بتايا کہ يوں تو دنيا ميں مختلف اقسام کی شہد کی مکھياں پائی جاتی ہيں۔ تاہم، پاکستان ميں چار قسم کی شہد کی مکھياں موجود ہيں، جن کی عادات اور شہد بنانے کی صلاحیت بھی مختلف ہوتی ہيں۔
ڈاکٹر یونس کے بقول، چھوٹی مکھی يا ‘ايپس فلوريا’ ہاتھ کی ہتھيلی کی طرح چھتے بناتی ہے اور يہ روشنی کو پسند کرتی ہے۔ يہ مکھی چھتے عمومی طور پر جھاڑيوں ميں بناتی ہيں۔
ان کا کہنا ہے کہ شہد کی بڑی مکھی، جنگلی مکھی يا ‘ايپس ڈومنا’ شہد کے چھتے اونچے درختوں پر بناتی ہيں۔ ان کے چھتے کی لمبائی دو ميٹر تک ہوتی ہے۔ يہ انتہائی محنتی اور ان کے کاٹنے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ انکی پيداواری صلاحيت بہت زيادہ ہے۔
شہد کی مکھیوں کی اقسام بتاتے ہوئے ڈاکٹر یونس کا کہنا تھا کہ پہاڑی مکھی، سواتی مکھی يا ‘ايپس سيرانا’ مکھی پاکستان ميں پہاڑی اور دامن کوہ سے منسلک علاقوں ميں پائی جاتی ہيں۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ بد قسمتی سے گلوبل وارمنگ کے باعث پاکستان ميں اب صرف دو اقسام کی مکھياں شہد پيدا کر رہی ہيں، جس کی وجہ سے پاکستان ميں شہد کی پيداوار ميں نماياں کمی آئی ہے۔
ڈاکٹر يونس نے مزيد بتايا کہ پاکستان ميں جو شہد کمرشل بنيادوں پر پيدا ہوتا ہے، وہ مکھياں بنيادی طور پر اٹلی اور آسٹريليا سے درآمد شدہ ہيں۔ پاکستان ميں موسم اور بارشيں موسمياتی تبديليوں کے باعث بے ترتيب اور بے اعتبار ہوتی جا رہی ہيں۔ جس کا شہد کی پیداوار پر بہت زيادہ اثر ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتايا کہ بارشيں ايسے وقت ميں ہو رہی ہيں کہ جب درخت پر پھول تيار ہوتا ہے۔ جب شہد کی مکھی کو پھول ميں سے رس نہیں ملے گا تو شہد ميں خود بخود کمی آئے گی۔
گل بادشاہ کے مطابق، یورپ کے ساتھ شہد کی برآمد سے متعلق تجارتی معاہدہ نہ ہونے کے باعث پاکستانی شہد صرف خلیجی ممالک میں ہی بھیجا جاتا ہے۔
‘نيشنل ايگريکلچر ريسرچ سینٹر’ کے ڈائریکٹر راشد محمود کا کہنا ہے کہ يورپی ممالک کے اسٹينڈرڈ بہت سخت ہيں۔ جيسا کہ ہمارے پودوں ميں فلورا بہت کم ہے اور شہد کچا پکا مارکيٹ ميں آ جاتا ہے۔ اسکے علاوہ مگس بانی میں دوائيوں کا استعمال بہت زيادہ ہے، جس کے اثرات شہد کے اندر آ جاتے ہيں۔
راشد محمود کا کہنا ہے کہ رواں سال شہد کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ شہد کی پیداوار میں کمی ہے۔
راشد محمود کے بقول، کچھ حکومتی پاليسياں بھی ٹھيک نہیں ہيں۔ جيسا کہ صوبہ پنجاب کا پوٹھوہار کا علاقہ بيری اور پلائی کے درخت کے لیے مشہور تھا۔ ليکن اب حکومت نے وہاں پر بڑے پيمانے پر زيتون کاشت کرنے کا سلسلہ شروع کيا ہے، جس کی وجہ سے اب پلائی کے درخت کم رہ گئے ہین۔
ان کے مطابق، موسمياتی تبديلی، جنگلات کی کٹائی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مکھيوں کی خوراک کم ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے مگس بانی کے شعبے کو شدید خطرات لاحق ہیں۔