ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بھارت کی جانب سے پلوامہ واقعے کے سلسلے میں پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے اور پاکستان جوابی کارروائی کرتا ہے تو پھر افغانستان میں امن کا عمل پس منظر میں چلا جائے گا
بھارتی کشمیر میں چند روز قبل ایک خودکش حملے میں بھارت کے نیم فوجی دستوں کے 50 کے قریب فوجی مارے گئے۔ بھارت اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے، جبکہ پاکستان اسکی سختی سے تردید کرتا ہے اور معاملے کی تحقیقات میں تعاون کی بھارت کو پیشکش کرتا ہے۔
دوسری جانب، پاکستان۔افغانستان میں امن کے عمل میں پوری طرح ملوث ہے اور امریکہ اس کے کردار کو سراہ رہا ہے۔
تاہم، ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بھارت کی جانب سے پلوامہ واقعے کے سلسلے میں پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے اور پاکستان جوابی کارروائی کرتا ہے تو پھر افغانستان میں امن کا عمل پس منظر میں چلا جائے گا۔
اس بارے میں دو ماہرین، ’مڈایسٹ انسٹیٹیوٹ‘ کے ڈاکٹر مارون وائن بام اور پاکستان میں دفاع اور سیکورٹی کے تجزیہ کار، بریگیڈیر (ر) عمران ملک نے وائس آف امریکہ اردو سروس سے گفتگو کی۔
ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ اگر بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملہ ہوتا ہے تو افغان امن عمل میں خلل پڑ سکتا ہے۔
بقول اُن کے، ’’میرے خیال میں یہ بات بہ آسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی تصادم ہوتا ہے تو افغانستان کے امن عمل پر اسکا گہرا اثر پڑسکتا ہے، کیونکہ پھر پاکستان کی فوری توجہ بھارت سے ملنے والی سرحد پر مرکوز ہو جائے گی۔ اور یوں اسکی توجہ اس رول کی طرف سے ہٹ جائے گی جسکی امریکہ اور دوسرے توقع کر رہے ہیں کہ وہ طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لئے ادا کرے گا۔ دوسرے الفاظ میں، یہ پاکستان کی توجہ ہٹانے والی کارروائی ہو گی‘‘۔
پلوامہ واقعے پر امریکی رد عمل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ ’’اگر امریکہ اس پر بھرپور رد عمل نہ دیتا تو یہ بھارت کے خیال میں درست نہ ہوتا۔ چنانچہ امریکہ کے پاس اس قسم کا رد عمل دینے کےسوا کوئی اور چارہ کار نہ تھا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’اب سب کچھ بھارت کی کارروائی پر منحصر ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ بھارت کی کارروائی اس بات کا تعین کرے گی کہ پاکستان جواب دیتا ہے یا نہیں۔ اور کیا منافرتوں کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ ہر شخص کے خیال میں انتہائی خطرناک ہو گا‘‘۔
ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ ’’اگر بھارت کارروائی اپنے کشمیر کے علاقے میں کرتا ہے تو شاید پاکستان کچھ نہ کرے۔ لیکن، اگر وہ راجھستان کے علاقے میں کارروائی کرتا ہے تو یہ پاکستان کے نزدیک سرخ لائن کراس کرنے کے مترادف ہو گا۔ وہ سرخ لائن جسکے اختتام پر جوہری ہتھیار موجود ہیں‘‘۔
بریگیڈیر (ر) عمران ملک نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ اسوقت امریکہ نے جو مؤقف اختیار کیا وہ پاکستان کی سمجھ سے باہر ہے۔ اور پاکستان کو اس سلسلے میں مزید وضاحت چاہئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ خاص طور پر امریکی صدر کے قومی سلامتی مشیر جان بولٹن کے بیان کا پاکستان میں یہ مطلب لیا گیا ہے کہ انہوں نے بھارت کو چھوٹ دےدی ہے کہ وہ جسطرح چاہے جواب دے۔
انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان توقع کر رہا تھا کہ امریکہ ثالث کا کردار ادا کرے گا‘‘۔
بریگیڈیر (ر) عمران ملک کا کہنا تھا کہ ’’جب پاکستان کے اپنے وجود کی بات آئے گی تو پھر اسکی پوری توجہ اپنے دفاع پر مرکوز ہو جائے گی اور چاہے افغانستان کے امن کا عمل ہو یا کوئی اور معاملہ اسکے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جنگ میں ہر چیز پس منظر میں چلی جائے گی‘‘۔
آڈیو رپورٹ سنئیے: