پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا بھارتی وزارت برائے امور خارجہ کے بیان پر ردعمل سامنے آ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے پاکستان کے لیے بھارت کا ردعمل غیر متوقع نہیں۔ پاکستان اب بھی کہتا ہے کہ اگر ٹھوس شواہد ہیں تو ہم سےشئیر کیے جائیں، ہم تعاون کریں گے۔
ملتان میں وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم کے خطاب پر بھارتی وزارت خارجہ کا ردعمل غیر متوقع نہیں۔ یہ بھارت کی ضرورت ہے۔ الیکشن کے ماحول میں پاکستان کی معقول آفر انہیں ہرگز پسند نہیں۔ اگر آپ کے پاس ٹھوس شواہد ہیں تو ہم سے شئیر کریں، ہم اپ سے تعاون کریں گے اور اگر حملہ ہوا تو دفاع کا حق رکھتے ہیں اور جواب دیں گے۔
انہوں نے کہا بھارت کا یہ کہنا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے مذمت نہیں کی درست نہیں، میں نے کم سے کم چھ انٹرویوز میں اس واقعہ کی مذمت کی اور تعزیت بھی۔ میں وزیر اعظم کا نمائندہ ہوں، پاکستان کا وزیر خارجہ ہوں، پاکستان کا ترجمان ہوں اور جو کہا وہ وزیر اعظم کی مرضی اور منشا پر کہا۔
بھارت کی طرف سے پلوامہ واقعہ میں جیش محمد کے ملوث ہونے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ“ جیش محمد نے ابھی تک اس حملے کو تسلیم نہیں کیا اور نہ کہا ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث ہے۔ میری نظر سے ایسا کوئی بیان نہیں گزرا۔ ابھی تک ایسا نہیں ہے۔ خودکش حملہ آور ہندوستانی تھا مقبوضہ کشمیر کا رہنے والا تھا۔ اس گاؤں کا تھا جہاں 20 افراد مارے گئے۔ اس کی تذلیل کی گئی ناک رگڑے گئے۔ یہ سب طاقت کے بے جا استعمال کا ردعمل ہے۔‘‘
مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کہہ چکے کہ ماضی کو چھوڑیں یہ نیا پاکستان ہے، نئی قیادت اور نیا مائنڈ سیٹ ہے۔ اگر اپ کے پاس شواہد ہیں اور شئیر کریں گے اور اگر کوئی ادارہ یا فرد اس میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف ایکشن لیں گے، یہ ہمارا واضح موقف ہے اور پالیسی ہے کہ ہم اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
“دیکھئے ہم نے تو پہلے واضح طور پر کہہ دیا ہماری واضح پالیسی ہے۔ ہم اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، کسی کے خلاف بھی، بشمول ہندوستان۔ یہ ہماری پالیسی نہیں ہے نہ ہم چاہیں گے کہ کوئی اور سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو۔”
ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ بڑا واضح پیغام ہے اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی بات کرتے ہیں۔ بالکل میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ میں تشدد کی مذمت کرتا ہوں۔ لیکن جو ریاستی دہشت گردی ہندوستان اپنے کنٹرول کے کشمیر میں کر رہا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے۔ وہ جو پیلٹ گن کا استعمال کر رہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے۔ وہ جو عورتوں کا ریپ کیا جا رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اسپیشل لاز کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو کون کچل رہا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں بار بار بڑی جمہوریت کا نہ بتایا جائے، جو کچھ بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں ہو رہا ہے وہ ہمیں پتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا ایک عکس تو دکھائی دے رہا ہے نا۔ میں دعوت دیتا ہوں۔ ہمارے کنٹرول کا کشمیر آزاد ہے اور آپ کا کشمیر قبضے کا نمونہ پیش کرتا ہے دنیا کے نمائندگان کو۔ آپ اپنے کشمیر کے دروازے مبصرین کے لئے کھول دیں، ہم اپنے کشمیر کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ اور لوگ دیکھیں کہ کشمیر کے دونوں حصوں کے لوگ کیا کہتے ہیں۔ اس کے بعد بتائیں کہ جمہوریت کہاں ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے بھارت کے عزائم اچھے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم نے بہت بردباری سے، بہت حوصلے سے، ان کی باتیں سنیں۔ بالکل ردعمل نہیں دیا، نہیں لیکن دھمکیوں کے بعد میں نے اپنا فرض سمجھا کہ میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھوں اور انہیں کہوں کہ معاملات کو دیکھیں اور کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کریں۔ ہم اپنا مؤقف پیش کر رہے ہیں۔ ہمارے دوست ممالک سے رابطے ہیں۔ہم اپنا جو دفاع کر سکتے ہیں کریں گے۔