رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: دو مبینہ عسکریت پسند ہلاک، روایتی لباس 'پھرن' پر پابندی کا مطالبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز اور مشتبہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ میں دو مبینہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔ ادھر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت دائیں بازو کی بعض سیاسی جماعتوں نے کشمیریوں کے روایتی لباس 'پھرن' پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق بدھ کو اس آپریشن کے دوران بھارتی فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی ہیلی کاپٹر اور ڈرون بھی استعمال کیے۔ حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اننت ناگ کے شال گُل جنگل میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے آغاز پر ہی پورے ضلعے میں انٹرنیٹ سروسز کو معطل کر دیا گیا۔

سرینگر میں بھارتی فوج نے بتایا کہ آپریشن جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے موصول ہونے والی اس اطلاع کے ملنے پر شروع کیا گیا کہ اس علاقے میں عسکریت پسندوں کا ایک گروپ چھپا ہوا ہے جس کا مقصد سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا ہے۔

روایتی لباس 'پھرن' پر پابندی کے مطالبات

ادھر پورے جموں و کشمیر میں سیکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ مقامی پولیس اور بھارت کے وفاقی پولیس اور نیم فوجی دستے شہروں اور قصبوں بالخصوص دارالحکومت سرینگر میں گزشتہ تین روز سے مختلف مقامات پر قائم چیک پوسٹس پر تلاشی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے ممکنہ حملوں کے پیشِ نظر سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

جمعے کو سرینگر کے ایک مصروف بازار میں ایک مشتبہ عسکریت پسند نے دو پولیس اہلکاروں کو اپنے پھرن میں جو کشمیریوں کا روایتی لباس ہے پوشیدہ اے کے 47 رائفل سے اچانک نشانہ بنا کر ہلاک کیا تھا۔ اس حملے کے بعد بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور دائیں بازو کی ہم خیال جماعتوں نے اس مخصوص کشمیری لباس پر پابندی کا مطالبہ کر دیا ہے۔

کشمیر کی کانگڑی اور پھرن
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:35 0:00

اس پس منظر میں وادیٔ کشمیر کی سڑکوں اور دیگر عوامی مقامات پر تعینات سیکیورٹی فورسز کی جانب سے اس روایتی لباس کو اُتارنے پر مجبور کیے جانے کی بھی شکایات ہیں۔

بعض مقامات پر سرکاری عمارتوں اور دفاتر میں داخل ہونے والے افراد کو بھی پھرن اتار کر ہی اندر جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ کئی سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں نے سیکیورٹی فورسز کے اس رویے پر سخت تنقید کی ہے۔

'پھرن کشمیریوں کی تہذیب ہے، پابندی مسئلے کا حل نہیں'

ماہرینِ انسدادِ دہشت گردی و عسکریت پسندی بھی اس طرح کے اقدامات سے متفق نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو اس صورتِ حال سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے کسی لباس پر پابندی عائد کرنے کے بجائے اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لانی چاہیے۔

بھارتی پولیس کے سابق سربراہ شیش پال وید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 1990 کی دہائی کے دوراں جب جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی عروج پر تھی تو 'پھرن' میں اسلحہ چھپا کر منتقل کرنے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن اس لباس پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔

اُں کے بقول اس وقت عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے دیگر طریقے اپنائے گئے تھے۔

اُن کے بقول پھرن کشمیریوں کا صدیوں پرانا روایتی لباس ہے بلکہ یہ اور کانگڑی (پورٹیبل انگیٹھی یا آتش دان) ان کی تہذیب کا لازمی جزو ہے جو پورے بدن کو سردی سے بچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ "پھرن پر پابندی مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حل یہی ہے کہ جس پر آپ کو شک ہو اس کو روک لیں۔ اس کی جامہ تلاشی لیں یا اگر اس نے واقعی پھرن کے نیچے غیر قانونی اسلحہ چھپا رکھا ہے تو اُس کے خلاف مناسب کارروائی کریں۔"

XS
SM
MD
LG