بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے ایسے رضا کاروں کو بھرتی کرنے کا آغاز کیا ہے جو انٹرنیٹ صارفین کی نگرانی کریں گے اور حکام کو سائبر کرائم سے متعلق آگاہ کریں گے۔
کشمیر پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے اور شکایات کا بر وقت ازالہ کرنے میں مدد ملے گی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پولیس ان رضا کاروں کے ذریعے حکومت مخالف عناصر پر دباؤ بڑھانا اور اختلاف رائے کو دبانا چاہتی ہے۔ کیوں کہ رضا کار مبینہ غیر قانونی مواد کی نشاندہی بھی کریں گے۔
پولیس کے مطابق ایسے افراد آن لائن غیر قانونی اور ممنوع مواد جیسے بچوں کی فحش نگاری، ریپ، اجتماعی زیادتی، دہشت گردی، بنیاد پرستی اور ملک دشمن سرگرمیوں کی نشاندہی کریں گے۔
پولیس کی نگرانی میں چلائے جانے والے اس پروگرام کے نتیجے میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
صحافی، انسانی حقوق کے کارکنوں اور عام لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ حکومت اور پولیس پر اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے 'مخبروں' کو استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
'پولیس مخبر سے چیٹنگ عوام کو مہنگی پڑ سکتی ہے'
اس حوالے سے مقامی اخبار ‘کشمیر والا’ کے مدیر فہد شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس کے اس پروگرام سے ایسے عناصر کو کھلی چھوٹ مل جائے گی جو سیاسی، نظریاتی یا مذہبی اختلاف اور ذاتی پسند یا ناپسند کی پر دوسروں کو تنگ کرنا یا انہیں مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
فہد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ خود پولیس بھی ایسے رضا کاروں کو اختلافِ رائے دبانے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔
ان کے بقول انہوں نے حال ہی میں دیکھا ہے کہ کس طرح کامیڈین منور فاروقی کو ہندو دیوی دیوتاؤں کے خلاف مبینہ غیر مہذب الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔
فہد شاہ کا کہنا تھا کہ کوئی بھی رضا کار آپ کی کسی بھی سوشل میڈیا پوسٹ کو قوم یا سماج دشمن، غیر قانونی یا قابلِ اعتراض قرار دے کر پولیس کے ذریعے آپ کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک طرح کی سینسرشپ ہے جسے مختلف انداز میں عائد کیا جائے گا اور اس کا مقصد عوام کو خوف زدہ کرنا بھی ہے۔
ان کے بقول جموں و کشمیر میں وہ پہلے ہی اس طرح کی صورتِ حال سے دوچار تھے اور اب ان میں شدت آسکتی ہے۔
اخبار کے مدیر کے مطابق پہلے چند افسران عوامی رابطہ سائٹس پر جاری شغل کی نگرانی کر رہے تھے۔ اب یہ معمول کی سرگرمی بن جائے گی۔ عوام کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ فیس بُک پر ان کا کوئی دوست یا ٹوئٹر پر کوئی فالور پولیس کا مخبر ہے۔ ایسے شخص کے ساتھ چیٹنگ عوام کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔
سیکشن 66-اے کی واپسی
مقامی اخبار 'کشمیر والا' نے ایک وکیل حبیل اقبال کا انٹرویو شائع کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ یہ اسکیم ‘انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ’ کے سیکشن 66 اے کے تحت، جس کو کچھ عرصہ پہلے منسوخ کیا گیا تھا، نافذ کیا گیا ہے۔
حبیل اقبال کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی یہ منسوخ شدہ شق آن لائن اظہارِ خیال کے ذریعے جرائم کے خلاف قابلِ سزا کارروائی کرنے کی اجازت دیتی تھی۔
ان کے بقول سیکشن 66 اے کو اب ایک دوسرے دروازے سے واپس لایا جا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس اقدام کا اصل مقصد یہ لگتا ہے کہ آپ کو سوشل میڈیا پوسٹس کے لیے گرفتار کیا جائے۔
خدشات و الزامات بے بنیاد قرار
پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ان تمام خدشات اور الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آ ف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس کے اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس اسکیم کا مقصد محض سائبر کرائم کا تدارک ہے۔
ان کے بقول اگر کوئی شخص کسی غیر قانونی عمل کا ارتکاب نہیں کرنا چاہتا، تو وہ متفکر یا خوف زدہ کیوں ہو گا؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی کو بلا وجہ تنگ کریں گے اور نہ ہی کسی رضار کار کو ایسا کرنے دیں گے۔ قانون کے تحت کارروائی کرنے سے پہلے ہر شکایت اور اطلاع کا قواعد اور ضوابط کے تحت جائزہ لیا جائے گا۔
انہوں نے وضاحت کی ہے کہ رضاکاروں کی تقرری کی یہ اسکیم ایک کُل ہند پروگرام کا حصہ ہے جسے بھارت کی وفاقی وزارتِ داخلہ نے حال ہی میں ‘انڈین سائبر کرائم کوآرڈینیشن سینٹر’ کے زیرِ نگرانی شروع کیا ہے۔
ان کے مطابق ملک بھر میں عام شہریوں پر مشتمل رضاکاروں کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے مبینہ سائبر کرائمز کی نشان دہی کی جا سکے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کا نام ‘سائبر کرئم والنٹئرز پروگرام' رکھا گیا ہے اور اس کے تحت ان شہریوں کے لیے جو ملک کی خدمت کرنے کا جنون رکھتے تھے، ایک مرکزی پلیٹ فارم فراہم کیا گیا ہے۔
وزارتِ داخلہ کے 'نیشنل سائبر کرائم رپورٹنگ پورٹل’ کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق یہ پروگرام ان افراد کے لیے بھی ہے جو سائبر کرائم کے خلاف لڑائی میں مدد دینے کے لیے کسی اور میدان میں رضا کار بننے کے لیے تیار ہیں۔
جموں و کشمیر میں اس پروگرام کے تحت انسپکٹر جنرل آف پولیس (کرائم برانچ) نے بدھ سے درخواستیں وصول کرنا شروع کی ہیں۔
حکام کے مطابق متعلقہ دفتر سے درخواست گزاروں سے رابطہ قائم کیا جائے گا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ اس طرح کی خدمات کے لیے کوئی معاوضہ بھی ادا کیا جائے گا یا نہیں۔
تیز رفتار انٹرنیٹ 18 ماہ بعد بحال
دوسری طرف بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اٹھارہ ماہ سے تیز رفتار انٹرنیٹ پر عائد پابندی کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب کو ہٹایا گیا ہے۔
محکمۂ داخلہ کے پرنسپل سیکریٹری شالین کابرا نے بتایا کہ تیز رفتار فور-جی انٹرنیٹ سروسز کو جموں و کشمیر کے سب ہی 20 اضلاع میں بحال کیا گیا ہے۔
واضح رہے نئی دہلی نے پانچ اگست 2019 کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں کا درجہ دیا تھا۔ اس اقدام کے ساتھ ہی علاقے میں مکمل مواصلاتی بلیک آؤٹ کر دیا گیا تھا۔ جس میں بعد میں مرحلہ وار نرمی کی گئی۔
گزشتہ سال اگست میں حکام نے جموں و کشمیر کے دو اضلاع ادھم پور اور گاندربل میں تیز رفتار انٹرنیٹ سروسز کو تجرباتی طور پر بحال کیا تھا تاہم علاقے کے باقی 18 اضلاع میں یہ پابندی جاری تھی۔