رسائی کے لنکس

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تین صحافیوں کے خلاف مقدمات درج


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالیہ دنوں کے دوران تین صحافیوں گوہر گیلانی، پیرزادہ عاشق اور مسرت زہرا کے خلاف اشتعال پھیلانے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لیے ہیں۔

پولیس نے منگل کی رات کشمیری صحافی اور مصنف، گوہر گیلانی کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے مبینہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

سری نگر میں ایک بیان میں پولیس نے کہا ہے کہ "گوہر گیلانی سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹوں اور تحریروں کے ذریعے غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے پوسٹس بھارت کی قومی سلامتی، سالمیت اور سیکیورٹی کے معاملے پر متعصبانہ ہیں۔"

بیان کے مطابق، ''گوہر گیلانی کی اس سرگرمی کا مقصد وادی کشمیر میں دہشت گردی کو عزت بخشنا، ملک کے خلاف ناامیدی پھیلانا اور لوگوں کے ذہنوں میں خوف یا سراسیمگی پیدا کرنا ہے۔ اور یہ عمل ایسے جرائم کے ارتکاب کی وجہ بن سکتا ہے جو عوامی سکون کو غارت کرنے اور ریاست کی سیکورٹی کے لیے خطرہ پیدا کرنے پر منتج ہوسکتا ہے"۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ گوہر گیلانی کے خلاف لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کی شکایات بھی ملی ہیں۔

ادھر، ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے، گوہر گیلانی نے کہا ہے کہ "میں ایک مصنف ہوں اور صحافی کی حیثیت سے میں نے گزشتہ پندرہ برس کے دوران نہ صرف کشمیر کو کور کیا ہے، بلکہ کئی بین الاقوامی واقعات کی وقائع نگاری بھی کی ہے، جن میں امریکہ اور جرمنی میں ہونے والے عام انتخابات بھی شامل ہیں۔ یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ کووڈ-19 وبا کے دوران حکام کشمیر کے صحافیوں کا تعاقب کرنے اور انہیں خاموش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔"

اس سے قبل، بھارتی زیرِ انتظام کشمیر پولیس نے صحافی پیرزادہ عاشق کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے مشتبہ عسکریت پسندوں کی میتیں اُن کے اہل خانہ کے سپرد کرنے کی خبر دی تھی، جس سے نقص امن کا خدشہ پیدا ہوا۔

صحافی پیرزادہ عاشق نے خبر دی تھی کہ پولیس نے ضلع شوپیان میں جھڑپ میں ہلاک ہونے والے نوجوانوں کو ضلع سے 110 کلومیٹر واقع سرحدی ضلع بارہ مولہ کے ایک قبرستان میں دفن کر دیا تھا۔ یہاں عام طور پر غیر ملکی عسکریت پسندوں کی تدفین کی جاتی ہے۔

پولیس کا یہ موقف تھا کہ عسکریت پسندوں کی نعشیں وصول کرنے کوئی نہیں آیا۔ لہذٰا اُنہیں مذکورہ قبرستان میں دفنا دیا گیا۔

خبر میں کہا گیا تھا کہ ہلاک ہونے والے دونوں مشتبہ عسکریت پسندوں کا تعلق حزب المجاہدین سے تھا اور اُن کے نام عاشق احمد ماگرے اور آصف حمد ڈار تھے۔ اخباری رپورٹ میں کہا گیا کہ میتیں لواحقین کو نہ سونپنے پر علاقے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، جس دوران بجلی کی سپلائی لائن بھی کاٹ دی گئی تھی۔

بھارتی کشمیر: خاتون صحافی کے خلاف تصویریں شیئر کرنے پر مقدمہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:59 0:00

پولیس کا یہ کہنا ہے کہ پیرزادہ عاشق نے مذکورہ جھڑپ کے بعد کی صورتِ حال سے متعلق حقائق سے ہٹ کر رپورٹنگ کی۔ لہذٰا، یہ معاملہ 'فیک' اور جعلی خبر کے زمرے میں آتا ہے۔ عاشق کے خلاف اننت ناگ کے ایک تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا۔

پولیس کا موقف ہے کہ مذکورہ خبر سے خوف و ہراس پھیلا جب کہ خبر کی تصدیق کے لیے متعلقہ حکام سے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر متعلقہ مجسٹریٹ کی شکایت پر انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 505 کے تحت رجسٹر کی گئی ہے۔

اس سے قبل پیرزادہ عاشق سے سرینگر کے سائبر پولیس تھانے میں لگ بھگ تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی، جس کے بعد اُنہیں بتایا گیا کہ ضلع اننت ناگ کے پولیس اسٹیشن میں اُن کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پیرزاہ عاشق کا کہنا ہے کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہیں اور اس کی تیاری میں اُنہوں نے مصدقہ ذرائع سے بات چیت کی تھی۔

پولیس نے اس سے پہلے ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا پر بھی سوشل میڈیا پر 'ملک دشمن' پوسٹ کرنے پر اشتعال انگیزی پھیلانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

پولیس کا موقف ہے کہ خاتون صحافی نے فیس بک اور ٹوئٹر پر ملک کے خلاف اور غیر قانونی مواد پوسٹ کیا جو امن و امان میں خلل ڈالنے کے مترادف ہے۔

مسرت زہرا نے گزشتہ دنوں اپنی کھینچی ہوئی ایسی تصویریں ٹوئٹر اور فیس بُک پر ڈالی تھیں، جن میں سے دو میں ایک ایسی کشمیری خاتون کو درپیش صورتِ حال کی عکاسی ہوتی ہے جس کے شوہر کو 20 سال پہلےمبینہ طور پر بھارتی فوج نے ہلاک کیا تھا۔ ایک تصویر میں وردی پوش افراد کو ایک مقامی نوجوان کو گرفتار کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

مسرت زہرا نے منگل کو سائبر پولیس تھانے میں پیش ہونے کے بعد وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس افسران نے انہیں مطلع کیا کہ انہیں فی الحال گرفتار نہیں کیا جا رہا، چونکہ ابھی تحقیقات جاری ہے۔

صحافیوں کے حقوق اور میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے بھارتی کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کی مذمت کی ہے۔

اپنی ٹوئٹ میں (سی پی جے) کا کہنا ہے کہ مسرت زہرا اور پیرزادہ عاشق کو ہراساں کرنے کا عمل تشویش ناک ہے۔ صحافیوں کو جموں و کشمیر میں پیش آنے والے واقعات کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی مسرت زہرا اور پیرزادہ عاشق کے خلاف مقدمات کے اندراج کی مذمت کی ہے۔ تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG