رسائی کے لنکس

نیب، الزامات، تحقیقات اور میڈیا ٹرائل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عام تاثر یہ ہے کہ قومی احتساب بیورو یعنی نیب جب کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو سب سے پہلے میڈیا ٹرائل ضرور کراتا ہے۔

نیب کی کارروائیوں سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف ریفرنس بھلے دائر ہو نہ ہو لیکن اُس کا میڈیا ٹرائل ضرور ہونا چاہیے۔ کچھ عرصے سے پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں، نیب کے قوانین اور اِس کی تفتیش پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔

قومی احتساب بیورو گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی عہدے داروں اور سرکاری افسران کے خلاف ریفرینس بنانے اور اُنہیں عدالتوں میں دائر کرنے میں خاصی تیزی دِکھا رہا ہے۔ مگر اس کی کوششوں کا نتیجہ کچھ اور ہی نکلتا ہے۔ جس پر ایک سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کو یہ کہنا پڑا تھا کہ “لگتا ہے آپ کے اِس ریفرینس کے پیچھے مقاصد کچھ اور ہیں”۔​


اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے تحفظات

پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب سمجھتی ہیں کہ نیب آج تک اُن کی جماعت کے قائدین پر ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کر سکا۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مریم اورنگ زیب نے کہا کہ سیاست دانوں کے خلاف جب کچھ اور نہیں ملتا تو آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام ہمیشہ ان پر لگا دیا جاتا ہے اور اِس وقت بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔

“یہ جو نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے، یہ اِس کا ثبوت ہے اور یہ ڈیزائن کا حصہ تھا کیونکہ کارکردگی کرنی نہیں تھی۔ سیاسی انتقام کے ذریعے مصنوعی کارکردگی دِکھانی تھی”۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مریم اورنگ زیب نے کہا کہ نیب کی حوالات میں ملزمان کے ساتھ خواہ وہ سیاست دان ہو یا سرکاری افسر، بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ دوران تفتیش اُنہیں ذہنی دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔

“وہ لوگ جو اِنہوں نے عقوبت خانوں میں اِنہوں نے حراست کے نام پر رکھے ہوئے ہیں ان کے میڈیکل ٹیسٹ ہونے چاہییں۔ دوران حراست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے”۔

ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے گرد بھی نیب آہستہ آہستہ گھیرا تنگ کرتا جا رہا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور اُن کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری بھی نیب کے طریقہ تفتیش پر متعدد بار اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور احمد کہتے ہیں نیب کی تشکیل کا طریقہ کار ہی غلط ہے جسے مشرف نے سیاست دانوں کے خلاف بنایا تھا اور یہ اَب پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے چوہدری منظور نے کہا کہ نیب کے پاس تفتیش کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے اور آج تک نیب کا کوئی بھی کیس منطقی انجام تک پہنچ سکا ہے۔

“نیب صرف میڈیا کی ہیڈ لائن بنا رہا ہے۔ نیب ٹارچر کا ایک ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لوگوں کی ہتھکڑیوں میں موت ہوتی ہے۔ نوے دن کا جو ریمانڈ دیا جاتا ہے اِس پر تو اب سپریم کورٹ نے بھی کل کے فیصلے میں کہا ہے کہ بغیر ٹھوش شواہد کے آپ کسی کو گرفتار نہ کریں ”۔

حکومتی جماعت کے تحفظات

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان کو بھی نیب کے تفتیش کے طریقہ پر تحفظات ہیں۔ دوران پروڈکشن آرڈر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں بھی اور ماضی میں بھی جب وہ وزیر تھے تو اُنہوں نے اپنی ذات کو کوئی بھی فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا۔ عبدالعلیم خان نے کہا کہ نیب دوران تفتیش ایک ہی بات کو گھما پِھرا کر پوچھتا رہتا ہے۔

“میں پورے حلف کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ علیم خان نے کبھی اپنے آپ کو ایک روپیہ کا بھی فائدہ پہنچایا ہو۔ جب سے میں نے ایم پی اے کا حلف اٹھایا ہے پانچ مرتبہ نیب گیا ہوں۔ ہر تین دِن بعد مجھے نوٹس آ جاتا ہے جو چیزیں اُن کو دے کر آتا تھا اگلی مرتبہ اُسی میں سے چیزیں نکال لیتے تھے”۔

نیب کا موقف

نیب دفتر میں اُن کی کارکردگی جاننے بارے رابطہ کیا تو انہوں نے ایک لمبی فہرست تھما دی۔ جس کے مطابق انہوں نے گزشتہ سال 2018 میں ایون فیلڈ ریفرینس، آشیانہ اقبال ریفرینس اور اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات سمیت مجموعی طور پر 74 ریفرینس احتساب عدالتوں میں دائر کیے جبکہ چار ارب روپے سے زائد کی وصولی کی۔

نیب دفتر لاہور کے مطابق 2018 میں 207 تحقیقات شروع کیں جن میں سے 107 کو نمٹایا جا چکا ہے۔ نیب لاہور کے ترجمان کے مطابق اُنہیں رواں سال 2019 میں اب تک بارہ کروڑ سترہ لاکھ روپے رقم کی وصولی کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔

وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر نیب لاہور نے اپنے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے ویڈیو پیغامات کے ذریعے اُن کا موقف بھیجا۔ ویڈیو پیغامات میں چیئرمین نیب نے کہا کہ اُن کا کام کرپشن کے خلاف تحقیقات کرنا ہے۔ ملزمان کے خلاف ریمانڈ عدالتیں دیتی ہیں۔ ہم نے کسی سے کوئی انتقام نہیں لینا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ اُن کی ہمدردیاں کسی گروہ، کسی ادارے یا حکومت کے ساتھ نہیں ہیں۔ انہوں نے کسی سے کوئی انتقام نہیں لینا۔ نیب کو تحقیقات سے کوئی روک نہیں سکتا۔ اُن کے لیے صرف پاکستان اور اُس کے مفادات مقدم ہیں۔

“ہمارے لیے پاکستان کے تمام سیاست دان چاہے وہ حزب اختلاف سے ہو یا حزب اقتدار سے قابل احترام بھی ہیں، برابری کا درجہ بھی رکھتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے حزب اقتدار کو حزب اختلاف پر کسی قسم کی کوئی ترجیح دی ہو۔ حزب اختلاف کو میں اتنا ضرور کہوں گا کہ تھوڑا سا باذوق ہونے کی نشانی ہونی چاہیے۔ نیب صرف بدعنوانی کے خاتمے کے لیے آیا ہے ہمارا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں کسی سے کوئی جھگڑا نہیں”۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں جتنے بڑے کیسز منی لانڈرنگ سے متعلق ہیں وہ تقریباً سارے نیب کے حوالے کیے گئے ہیں اور وہ پوری کوشش کریں گے کہ نیب پر کیے جانے والے اعتماد پر سب پورا اتریں۔

“اگر آپ کے سامنے ملزم بھی بیٹھا ہوا ہے تو اُس کی عزت نفس بھی اپنی جگہ موجود ہے جب تک وہ ملزم سے مجرم نہیں بن جاتا۔ نیب کے پاس صرف وہ تفتیش کے لیے آیا ہے۔ سزا جزا کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ ہمارے لیے سب برابر ہیں۔ ہمارا ایک ہی بنیادی اصول ہے جو کرے گا وہ بھرے گا۔ اِس کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے”۔

تجزیہ کاروں کی رائے

تجزیہ کاروں کے مطابق نیب کی تفتیشوں میں کوئی چیز سامنے نہیں آ رہی جس سے نیب کی بدنامی ہوتی ہے۔

معروف صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ سندھ میں عاصم حسین کی گرفتاری سے لے کر پنجاب میں سیاست دانوں اور بیورکریٹس کی گرفتاری تک ابھی کوئی چیز سامنے نہیں آئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احمد ولید نے کہا کہ حقیقت میں لگتا یہ ہے کہ نیب حکومت کے زیر اثر تو نہیں ہے لیکن اِس کے پیچھے کوئی ایسا ادارہ ضرور ہے جِس کے یہ کنٹرول میں ہے اور وہ سیاسی انتقام کی طرف زیادہ جا رہے ہیں۔ جبکہ دیگر کیسوں میں نیب زیادہ حرکت میں نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں کے رہنماؤں کو مختلف کیسوں میں شامل کیا ہوا ہے۔ یہی دو سیاسی جماعتیں کہتی ہیں کہ حکومت میں شامل افراد کے بھی نیب میں کیسز ہیں لیکن انُہیں کچھ نہیں کہا جاتا۔

“نیب اپنے لوگوں کی تربیت کرے۔ انہیں تفتیش کے جدید آلات فراہم کرے اور انہیں بتائے کہ وائٹ کالر کرائم کس طرح سے پکڑے جاتے ہیں۔ اگر نیب پہلے لوگوں کو اٹھا لے گا اور بعد میں تفتیش کرے گا تو تفتیش میں تو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ نیب کے پاس اختیار ہے کہ وہ لوگوں کو گرفتار کر سکتا ہے۔ اب تو سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ نیب دوران تفتیش کسی کو گرفتار کر سکتا ہے لیکن اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کرے۔”۔

نیب کی تفتتیش کے دوران سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر جاوید اقبال کی ہلاکت اور ہتھکڑی لگی لاش نے نیب کے طریقہ کار پر کئی سوال اٹھا دیے تھے۔ جامعہ پنجاب کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران نے ہمت کر کے قید کے دوران نیب کے سلوک پر اپنی زبان کھولی اور بتایا کہ نیب زیر حراست افراد سے کس طرح کا سلوک کرتا ہے۔ اور رہی سہی کسر آئی ایس آئی کے سابق سربرراہ بریگیدیئر ریٹائرڈ اسد منیر کی مبینہ خودکشی نے پوری کر دی۔ انہوں نے اپنے آخری خط میں کہا تھا کہ وہ نیب کے سلوک کے ڈر سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔

حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نیب قوانین تبدیل نہ کرنے یا ادارہ ختم نہ کرنے پر افسوس ہے۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو نیب قوانین کا از سرنو جائزہ لینا ہو گا۔ کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ کل آسمان کا رنگ کیا ہو گا۔

XS
SM
MD
LG