اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی جعلی بینک اکاونٹس میں 10 اپریل تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کے ہاتھوں گرفتاری کے خدشے کے پیشِ نظر سابق صدر اور ان کی بہن نے بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھیں۔
آصف علی زرداری نے عدالت میں چار مختلف مقدمات میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ ٹرائل مکمل ہونے تک قومی نیب کو گرفتاری سے روکا جائے۔
جسٹس محسن کیانی اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعرات کو سابق صدر اور فریال تالپور کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں کی سماعت کی اور دونوں کی 10 اپریل تک عبوری ضمانت منظور کرلی۔
آصف زرداری نے عدالت میں دائر درخواست میں کہا تھا کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے خلاف نیب میں کون کون سی تحقیقات چل رہی ہیں کیوں کہ ان کے بقول وہ اس بارے میں لاعلم ہیں۔
آصف زرداری اور فریال تالپور کی جانب سے نیب کی تمام تحقیقات کی تفصیلات فراہم کرنے کی استدعا پر عدالت نے نیب کو آئندہ سماعت کے لیے نوٹس جاری کردیا ہے۔
آصف علی زرداری کے ترجمان عامر فدا پراچہ نے جمعرات کو سماعت کے بعد وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سابق صدر کو چار مختلف تحقیقات میں نیب نے بلایا تھا اور انہوں نے عدالت سے یہی استدعا کی ہے کہ اگر ان کے خلاف کوئی اور تحقیقات بھی چل رہی ہیں تو انہیں اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔
رواں ماہ کراچی کی بینکنگ عدالت نے نیب کی درخواست پر آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس کو کراچی سے اسلام آباد کی احتساب عدالت منتقل کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
بینکنگ کورٹ کے فیصلے کو آصف علی زرداری نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن ہائی کورٹ ان کی درخواست مسترد کردی تھی۔
البتہ ہائی کورٹ نے اس مقدمے میں سابق صدر اور ان کی ہمشیرہ کی 29 مارچ تک عبوری ضمانت منظور کی تھی جو آج ختم ہو رہی تھی۔
میگا منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق صدر اور ان کی ہمشیرہ کو 8 اپریل کو طلب کر رکھا ہے۔
اس سے قبل 20 مارچ کو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پارک لین اسٹیٹ کرپشن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب راولپنڈی کے سامنے پیش ہوکر اپنے بیانات قلم بند کرائے تھے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سے نیب کے افسران نے لگ بھگ دو گھنٹے تک پوچھ گچھ کی تھی۔
مقدمہ کا پس منظر
بے نامی بینک اکاؤنٹس کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب 2015ء میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ملک کے مختلف بینکوں میں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی رقوم منتقل کی گئی ہیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق انہیں اسٹیٹ بینک نے مشکوک ترسیلات کی رپورٹ بھیجی تھیں۔
ان اطلاعات کے سامنے آنے کے بعد سے ان بے نامی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ان تحقیقات میں ملک کے بڑے کاروباری گروپ بحریہ ٹاؤن، اومنی گروپ اور عارف حبیب گروپ کو بھی بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے فائدہ حاصل کرنے الزمات کا سامنا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مختلف کمرشل بینکوں کے درجنوں بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے مشکوک ترسیلات اور لین دین کا ابتدائی تخمینہ 35 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس اور جے آئی ٹی
بے نامی بینک اکاؤنٹس کے انکشاف کے بعد سپریم کورٹ نے اس کا از خود نوٹس لیا تھا اور گزشتہ سال ستمبر میں الزامات کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
جے ٹی آئی کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، ان کے بیٹے بلاول بھٹو، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کو شاملِ تفتیش کرنے کا کہا گیا تھا۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق بے نامی اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ کی گئی جس کا فائدہ اومنی گروپ، بحریہ ٹاؤن اور عارف حبیب گروپ کو پہنچا۔
جنوری میں سپریم کورٹ نے بینکنگ کورٹ میں زیر سماعت بے نامی اکاؤنٹس کا مقدمہ مزید تحقیقات کے لیے نیب کو بجھواتے ہوئے دو ماہ میں کیس مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے کہا تھا کہ نیب اپنی تحقیقات کے بعد سپریم کورٹ کو بتائے گا کہ آیا شاملِ تفتیش افراد کے خلاف عدالتی ریفرنس دائر کیا جائے یا نہیں۔