رسائی کے لنکس

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی: کبھی حریف تو کبھی حلیف


2016 کی اس تصویر میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف اسلام آباد میں ایک میٹنگ کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کا استقبال کر رہے ہیں۔
2016 کی اس تصویر میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف اسلام آباد میں ایک میٹنگ کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کا استقبال کر رہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے منگل کو کوٹ لکھپت جیل کے باہرجب نواز شریف کو نظریاتی اور اصولوں پر قائم لیڈر قرار دیا تو سیاسی حلقوں کے لئے یہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی۔

یہ پہلا موقع نہیں جب دونوں جماعتیں مشترکہ سیاسی حریف کے خلاف ایک ہی صفحے پر آئی ہیں۔ ملک کی دونوں سابق حکمران جماعتوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ تین دہائیوں سے زائد پر محیط ہے۔

یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن بھی لڑتی رہیں اور ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کے عمل کا حصہ بھی بنتی رہیں اور ایک وقت یہ آیا کہ دونوں جماعتوں نے مل کر مخلوط حکومت بھی تشکیل دی۔

بلاول بھٹو زرداری اپنی ماضی کی تقاریر میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ضیا الحق کا منہ بولا بیٹا، امیرالمومنین، مودی کا یار اور نجانے کیا کچھ کہہ چکے ہیں۔​

1988 سے 1999 کے تعلقات

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پہلی بار 1988 کے عام انتخابات میں آمنے سامنے آئیں۔ دونوں جماعتوں نے 1988 اور 1999 کے درمیان چار دفعہ عام انتخابات میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔

1988 میں پیپلزپارٹی کے مقابلے کے لئے نواز شریف کی سربراہی میں دائیں بازو کی جماعتوں کا ایک اتحاد تشکیل دیا گیا جسے اسلامی جمہوری اتحاد کا نام دیا گیا تاہم یہ اتحاد بے نظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی کو شکست نہ دے سکا۔

اس عرصے کے دوران دونوں جماعتیں دو دو دفعہ اقتدار میں آئیں لیکن ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتی رہیں۔

بے نظیر بھٹو نے نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ کئے تو نواز شریف نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک نجات چلائی یوں دونوں جماعتیں اس عرصے کے دوران اپنی حکومتی مدت پوری نہ کرسکیں۔

سیاسی تجزیہ کار سلمان عابد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں جماعتیں اس عرصے کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیلتی رہیں۔ ایک جماعت دوسری جماعت کی حکومت گرانے کے عمل میں شریک رہی اور یوں ان دونوں جماعتوں کی غلطیوں سے ملک میں جمہوری ادارے مضبوط نہ ہو سکے۔

سلمان عابد کہتے ہیں کہ جب 2006 میں لندن میں دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تو نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے ماضی میں سیاسی غلطیاں کیں اور دونوں جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کا حصہ بنتی رہی ہیں۔

میثاق جمہوریت

2006میں لندن میں ہونے والے ایک اعلی سطحی اجلاس کے دوران نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جسے میثاق جمہوریت کانام دیا گیا۔ میثاق جموریت کے بنیادی نکات میں یہ شامل تھا کہ دونوں جماعتیں ملک میں فوجی حکومت کے خاتمے کے لئے مشترکہ حکمت عملی طے کریں گی ۔

یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دونوں جماعتیں کسی کے اشارے پر حکومت گرانے یا بنانے کے عمل کا حصہ نہیں بنیں گی ملک میں آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کرنے پر کام کیا جائے گا۔

سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنوں جماعتوں نے اپنی ضرورت کے مطابق میثاق جمہوریت کی خلاف ورزیاں کیں۔

حسن عسکری کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاست میں تحریر شدہ معاہدوں کی کبھی اہمیت نہیں رہی اور یہی کچھ دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کے ساتھ بھی کیا۔

بے نظیر بھٹو کی ہلاکت

27 دسمبر 2007 کو انتخابی مہم کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا تو نواز شریف پیپلزپارٹی کے جیالوں کو حوصلہ دینے ہسپتال بھی پہنچے تھے۔ نواز شریف نے اس موقع پر کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو ان کی بہنوں کی طرح تھیں۔ تاہم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کے تعلقات نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کی کمان سمبھال لی۔

2008 کے عام انتخابات اور اختلافات

2008 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ن دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ دو دہائیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان رہنے والی دونوں جماعتوں نے ملک میں مخلوط حکومت قائم کی۔

پرویز مشرف کی جانب سے معزول کئے گئے ججز کی بحالی کا وعدہ پورا نہ ہونے پر چند ماہ بعد ہی مسلم لیگ ن مخلوط حکومت سے الگ ہو گئی اور پیپلزپارٹی کی حکومت کی کھل کر مخالفت شروع کر دی۔

میمو گیٹ اسکینڈل

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے تعلقات میں اس وقت شدید تناو آیا جب 2011 میں میمو گیٹ سکینڈل نے سر اٹھایا۔ میمو گیٹ سکینڈل میں حکومت پر الزام لگا کہ صدر آصف زرداری کے کہنے پر اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے پاکستان میں فوجی مداخلت روکنے اور سیکورٹی اداروں کو حکومت کے ماتحٹ لانے کے لئے امریکہ کو مداخلت کرنے کی درخواست کی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور خود درخواست لے کر سپریم کورٹ گئے۔

اس دوران پیپلزپارٹی نوز شریف پر یہ الزام لگاتی رہی کہ نواز شریف کسی کے اشارے پر ایسا کررہے ہیں۔

بلوچستان حکومت کا خاتمہ اور سینیٹ الیکشن

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے تعلقات میں اس وقت ایک بار پھر تناو آیا جب 2018 میں بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت میں بغاوت نے جنم لیا اور ن لیگ کی حکومت ختم ہو گئی۔

مسلم لیگ ن نے اس اقدام کو سازش قرار دیا اور دبے لفظوں میں آصف زرداری کو اس سارے عمل کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔

بلوچستان حکومت کے خاتمے کے باعث مسلم لیگ ن کو 2018 کے سینیٹ انتخابات میں بھی نقصان اٹھانا پڑا۔

کیا یہ وقتی قربت ہے ؟

سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں جماعتیں اس وقت احتساب کے شکنجے میں ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر دونوں جماعتیں اکٹھی ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتیں مل کر حکومت کو دباو میں لانا چاہتی ہیں کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے خلاف جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ حکومتی ایما پر ہو رہا ہے۔

دونوں جماعتیں دنیا کو یہ باور کروانا چاہتی ہیں کہ پاکستان میں احتساب کے نام پر مخالف سیاسی جماعتوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتیں وقتی طور پر اکٹھی ہوئی ہیں ایسا نہیں لگتا کہ یہ معاملہ زیادہ دور تک جائے گا جب مفادات ٹکرائیں گے تو یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا بھی ہوسکتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG