رسائی کے لنکس

اگر ڈرامے میں کردار امیر ہو، انگریزی بولتا اور جینز پہنتا ہو تو ضروری نہیں کہ وہ برا ہو: اُشنا شاہ


اداکارہ اشنا شاہ کا کہنا ہے کہ ہمارے ڈراموں میں یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ اگر آپ امیر ہیں، انگریزی بولتی ہیں اور جینز پہنتی ہیں تو آپ بری ہوں گی اور اگر آپ مشرقی لباس زیب تن کرتی ہیں اور غریب ہونے کے ساتھ ساتھ اردو بولتی ہیں تو آپ یقیناً اچھی ہوں گی۔
اداکارہ اشنا شاہ کا کہنا ہے کہ ہمارے ڈراموں میں یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ اگر آپ امیر ہیں، انگریزی بولتی ہیں اور جینز پہنتی ہیں تو آپ بری ہوں گی اور اگر آپ مشرقی لباس زیب تن کرتی ہیں اور غریب ہونے کے ساتھ ساتھ اردو بولتی ہیں تو آپ یقیناً اچھی ہوں گی۔

ٹیلی ویژن اسکرین پر اپنی بہترین اداکاری سے جگہ بنانے والی اُشنا شاہ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی ڈراموں میں اس تاثر کو بھی ختم ہونا چاہیے کہ یا تو انسان صرف اچھا ہو سکتا ہے یا صرف برا، درمیان میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ ان کے بقول ایسا صرف ڈزنی کی فلموں اور کارٹون کی دنیا میں ہوتا ہے، اصل زندگی میں ہر شخص کے دو پہلو ہوتے ہیں۔

اُشنا شاہ کا مزید کہنا ہے کہ ہمارے ڈراموں میں یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ اگر آپ امیر ہیں، انگریزی بولتی ہیں اور جینز پہنتی ہیں تو آپ بری ہوں گی اور اگر آپ مشرقی لباس زیب تن کرتی ہیں اور غریب ہونے کے ساتھ ساتھ اردو بولتی ہیں تو آپ یقیناً اچھی ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ انہیں ایسے کرداروں کی تلاش رہتی ہے جس کے منفی اور مثبت دونوں پہلو ہوں تاکہ لوگوں کو حقیقت سے قریب اداکاری دیکھنے کو ملے۔

کرداروں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نڈر اور ڈرپوک کرداروں کے درمیان بھی کئی کردار ہوتے ہیں جس کو ایک اداکارہ اپنے انداز میں پیش کرسکتی ہے۔ ایک عورت کے کرداروں کی بہت رینج ہوتی ہےجس کی تمنا ہر اداکارہ کو ہوتی ہے۔ ان کی بھی کوشش ہے کہ اب ڈر اور نہ ڈرنے والے کرداروں کے بجائے 'کمپلی کیٹڈ نیچرل' کردار کریں۔

'لوگوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنا نہیں آتا'

وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں اُشنا شاہ نے خیال ظاہر کیا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر لوگ تو آ گئے ہیں لیکن اسے کس طرح استعمال کرنا چاہیے یہ سیکھنے میں انہیں وقت لگے گا۔

اپنی اداکاری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب وہ کسی ڈرامے میں معصوم کردار ادا کر رہی ہوتی ہوں اور ایسے میں انسٹاگرام پر ساڑھی پہن کر کوئی پوسٹ لگاتی ہوں تو لوگوں کے کمنٹس آتے ہیں کہ ڈرامے میں تو بیچاری بنی ہوئی تھیں۔ یہاں سر پر دوپٹہ کیوں نہیں ہے۔ جب منفی کردار کرتی ہوں تو اس پر دوسرے قسم کی رائے زنی ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا کے استعمال پر انہوں نے کہا کہ پہلے وہ ہر ظلم اور غلط بات پر آواز اٹھایا کرتی تھیں البتہ وقت کے ساتھ ساتھ اور لوگوں کے ردِ عمل نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا ہے۔

لوگوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنا نہیں آتا: اشنا شاہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:37 0:00

انہوں نے واضح کیا کہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کو مسائل اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اسے اپنے پسندیدہ اداکار سے الجھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

'اداکارہ میرل سٹریپ کی فلمیں دیکھ کر بڑی ہوئی'

اشنا شاہ کی والدہ عصمت طاہرہ نے 1980 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کے لاتعداد ڈراموں میں اداکاری کی ہے۔ اشنا شاہ کی بہن ارسا غزل اور بھائی شاہ شرابیل بھی ٹی وی اور تھیٹر سے وابستہ ہیں۔ اشنا شاہ کا کہنا تھا کہ ان کے گھر میں شوبز سے لگاؤ تو سب کو ہے ہی البتہ اداکاری میں آنے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا۔

ان کے بقول کینیڈا میں رہنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے بچپن میں والدہ اور بہن کا زیادہ کام نہیں دیکھا اور جب وہ بڑی ہوئیں تو ان کی والدہ کام چھوڑ چکی تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ہالی وڈ اداکارہ میرل اسٹریپ سے کافی متاثر ہیں۔ انہیں بچپن میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ انہیں اداکارہ ہی بننا ہے۔

'کیریئر کے آغاز میں اردو پڑھنے میں کافی مشکل پیش آئی'

اُشنا شاہ نے اپنے کیرئیر کا آغاز 2013 میں ٹی وی سے کیا اور اگلے ہی سال کامیاب سیریل 'بشرِ مومن 'سے خوب نام کمایا۔ معروف ڈراموں'الف اللہ اور انسان'، ' لشکارا '، اور 'بلا' میں مرکزی کردار ادا کرنے والی اُشنا شاہ کا کہنا تھا کہ کیریئر کے آغاز میں انہیں اردو پڑھنے میں مشکل پیش آئی جس پر انہوں نے محنت کرکے قابو پالیا۔

ان کے بقول جب وہ اپنا پہلا اسکرپٹ رومن انگلش میں کرا رہی تھیں تو ان کی والدہ کو اچھا نہیں لگا اور انہوں نے ان پر زور دیا کہ وہ اردو سیکھیں۔

’پری زاد مردوں جب کہ آخر کب تک خواتین کے ایشوز پر مبنی ہے‘

حالیہ دنوں میں ناظرین نے اُشنا شاہ کو دو ڈراموں میں دیکھا۔ جنہیں دیکھنے والوں بے حد پسند بھی کیا۔ 'پری زاد' میں وہ ہیرو کی پہلی محبت کے طور پر سامنے آئیں وہی 'آخر کب تک' میں وہ ایک نڈر لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں جو اپنے گھر والوں کے لیے کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اُشنا شاہ کا کہنا تھا کہ جس طرح 'پری زاد ' ایک لڑکے کی کہانی ہے ویسے ہی 'آخر کب تک' کی کہانی ان بے تحاشہ لڑکیوں کی عکاسی کرتی ہے جن کے ساتھ کبھی نہ کبھی کوئی جنسی حادثہ ہوا ہوتا ہے۔

ڈرامہ 'ہم کہاں کے سچے تھے: 'اسود کے اندر ایک جنگ چل رہی ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:02 0:00

'پری زاد میں اپنے کردار کو وہ ایک مہمان کردار کہتی ہیں کیوں کہ انہوں نے اور باقی تمام لڑکیوں نے مومنہ درید کے کہنے پر یہ ڈرامہ سائن کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک لڑکے کی کہانی ہے جس کی زندگی میں ان سمیت کئی لڑکیاں آتی ہیں۔ جتنا 'پری زاد 'مردوں کے لیے اہم ہے۔ اتنا ہی 'آخر کب تک'، خواتین کے لیے۔

ان کے بقول اس ڈرامے کے آن ایئر ہوتے ہی بہت ساری لڑکیاں انہیں ملیں جنہوں نے کہا کہ اس ڈرامے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ان کی کہانی ہے۔

بقول اُشنا شاہ جب بھی انہیں کوئی پروجیکٹ آفر ہوتا ہے وہ اس کے ہر پہلو پر نظر ڈالتی ہیں تاکہ اپنے مداحوں کو کچھ نئے قسم کا کام کرکے دکھائیں۔

'منفی، مثبت کردار کچھ نہیں ہوتا'

اُشنا شاہ نے تین سال قبل ڈرامے 'بلا' میں ایک ایسا منفی کردارادا کیا تھا جو ان کی پہچان بن گیا تھا البتہ اداکارہ کا کہنا تھا کہ ابھی تک انہوں نے اپنے کیریئر میں صرف 15 سے 20 فی صد کردار ہی منفی کیے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ صرف اچھے اور صرف برے کرداروں کو ختم کرکے حقیقی کرداروں کو سامنے لانا چاہیے۔ جن کے اندر اچھی اور بری دونوں خصوصیات ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ آپ تمام لوگوں کو ایک ساتھ خوش نہیں کرسکتے۔ جب وہ بیچاری لڑکی کا رول کرتی تھیں تو سب کو ایشو ہوتا تھا کہ یہ صرف رونے دھونے والے کردار کرتی ہے۔ جب انہوں نے منفی کردار کیے، تب یہ کہا جانے لگا کہ آپ نے فلاں ڈرامے میں فلاں اداکار کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ پھر وہ ایسا کیا کریں کہ سب ہی خوش ہو جائیں کیوں کہ کردار تو ہمارے ہاں یا صرف اچھے یا صرف برے ہی ہوتے ہیں۔

اداکارہ اُشنا شاہ ان اداکاروں کے ساتھ بھی کام کرنا چاہتی ہیں جنہوں نے ان کی والدہ عصمت طاہرہ کے ساتھ کام کیا ہو۔ ان کے بقول وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ انہوں نے نعیم طاہر کے ساتھ کام کیا۔ اب ان کی خواہش ہے کہ وہ قوی خان کے ساتھ بھی کام کریں۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG