رسائی کے لنکس

قابلِ اعتراض مواد پر پیمرا کا نوٹس؛ 'ایسے احکامات ٹی وی انڈسٹری کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے'


گزشتہ ہفتے پیمرا کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں ڈراموں اور شوز میں قابلِ اعتراض مواد نہ دکھانے کی ہدایت کی تھی۔
گزشتہ ہفتے پیمرا کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں ڈراموں اور شوز میں قابلِ اعتراض مواد نہ دکھانے کی ہدایت کی تھی۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور شوبز انڈسٹری ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ پیمرا نے 21 اکتوبر کو تمام ٹی وی چینلز کو نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ڈراموں اور شوز میں قابلِ اعتراض اور نا مناسب مواد نہ دکھانے کی ہدایت کی تھی۔

پیمرا کے اس نوٹس پر شوبز سے جُڑی شخصیات کا سخت ردِعمل سامنے آیا ہے جس کے بعد نوٹیفکیشن کے خلاف ایک نجی ٹی وی چینل نے عدالت میں درخواست بھی دائر کر دی ہے۔

مذکورہ درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے سماعت کی جس میں پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا گیا ہے۔

درخواست کے متن میں کہا گیا ہے کہ پیمرا کا نوٹیفکیشن نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ یہ پیمرا آرڈیننس کے بھی خلاف ہے۔ پیمرا کے پاس ٹی وی چینلز کو ایسی ہدایت دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

درخواست میں یہ مؤقف بھی اپنایا گیا ہے کہ اس قسم کے اقدام بدنیتی پر مبنی ہیں۔ نجی ٹی وی چینل نے لاہور ہائی کورٹ سے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دینے کی بھی گزارش کی ہے۔

پیمرا نے نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا؟

گزشتہ ہفتے پیمرا کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں ڈراموں اور شوز میں قابلِ اعتراض مواد نہ دکھانے کی ہدایت کی تھی۔

اس نوٹیفکیشن میں درج ہے کہ ''نامناسب لباس، قربت کے مناظر، حساس یا متنازع موضوعات پر مبنی قابلِ اعتراض ڈرامے یا مواد اور واقعات کی غیر ضروری تفصیل نشر نہ کریں۔''

پیمرا کے مطابق پاکستانی ڈراموں میں گلے لگانا، بستر پر ساتھ بیٹھا ہوا دکھانا، بے حیائی کو فروغ دیتا ہے جسے بند کرنا چاہیے۔

پیمرا نے یہ نوٹس عوام کی جانب سے درج کی گئی شکایات کے بعد ٹی وی چینلز کو بھیجا ہے۔ پیمرا کے مطابق انہیں پاکستان سٹیزن پورٹل (پی سی پی) اور کال سینٹر جیسے مختلف پلیٹ فارمز پر موصول ہوئیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما شیری رحمٰن نے پیمرا کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پیمرا کو ورچوئل پولیس بننے کی ضرورت نہیں۔ ان کا کام ریگولیٹ کرنا ہے، سینسر نہیں۔

'گلے لگانا، بستر پر بیٹھ کر بات کرنا، یہ سب تو ہمارے گھروں میں بھی ہوتا ہے'

پیمرا کے نوٹیفکیشن میں یہ بھی لکھا ہے کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پاکستانی ڈرامے معاشرے کی حقیقی تصویر پیش نہیں کر رہے۔

ڈرامہ نگار محسن علی کا کہنا ہے کہ پیمرا میں بیٹھے لوگ ڈرامے ہی نہیں دیکھتے۔ انہیں نوٹس جاری کرنے سے قبل خود ڈرامہ دیکھنا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محسن علی کا کہنا تھا کہ ٹی وی ڈراموں میں جو بھی دکھایا جاتا ہے وہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ برائی کو 'ہائی لائٹ' کر کے اس کا حل پیش کیا جائے۔

محسن علی کے بقول بطور لکھاری ان پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان سمیت ہر لکھاری کے اندر ایک سیلف سینسر ہوتا ہے اور کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کے گھر والے اس کا لکھا ہوا ڈرامہ نہ دیکھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ کوئی جان بوجھ کر ایسا سین یا ڈرامہ لکھے جو بے مقصد ہو۔

محسن علی کے مطابق معیوب بات ہو یا اچھی، رائٹر اپنے ارد گرد سے ہی اٹھاتا ہے اور معاشرے کی عکاسی کیے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔

ڈرامہ نگار کا مزید کہنا ہے کہ وہ یہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ ہمارے ڈراموں میں بہت کچھ غلط ہو رہا ہے لیکن گلے لگانا، پیار سے دیکھنا، بستر پر بیٹھ کر بات کرنا، یہ سب تو ہمارے گھروں میں بھی ہوتا ہے۔ اس پر پابندی لگانے سے کیا لوگ یہ سب کرنا بھی بند کر دیں گے؟

ان کے مطابق پابندی لگانا ہے تو ان ڈراموں پر لگائیں جس میں عورت کو پٹتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، کسی کو جرم کی طرف اکسانے کی بات کی جاتی ہے یا کسی غلط کام کرنے والے شخص کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

محسن علی سمجھتے ہیں کہ جب تک لکھنے والوں کو آزادی نہیں ملے گی وہ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نہیں نبھا سکیں گے۔ پیمرا کو اگر پابندی لگانی ہی ہے تو اس کے لیے عوام کا کندھا استعمال نہ کرے بلکہ خود ڈرامے دیکھے۔

'اس قسم کے احکامات ٹی وی انڈسٹری کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے'

تیس برس سے ٹیلی وژن سے وابستہ اداکار نعمان اعجاز نے پیمرا کے اس نوٹس کے متعلق کہا کہ پابندی لگانا ہر مسئلے کا حل نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک طرف ترکی کی پیروی کرتا ہے تو دوسری جانب ان چیزوں پر پابندی لگا رہا ہے جن کی ترکی میں بھی ممانعت نہیں۔

ان کے بقول ترقی یافتہ ممالک میں پابندیاں نہیں لگائی جاتیں بلکہ لوگوں کو شعور دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ہر مسئلے کا حل پابندی کو سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں 50 برس سے ٹیلی وژن کو معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس قسم کے احکامات ٹی وی انڈسٹری کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔

نعمان اعجاز کا کہنا ہے کہ اگر پیمرا کو لگتا ہے کہ ڈراموں میں کوئی مسئلہ ہے تو ڈرامے بنانے والوں سے بات کریں نہ کہ حکم نامہ جاری کر دیں۔

اداکار کا کہنا ہے کہ پابندیاں لگانے سے بہتر ہے کہ دانش مند لوگوں پر مشتمل ایک نیوٹرل باڈی بنائی جائے جو پیمرا اور ٹی وی دونوں کی بات سنے اور اپنی رائے سے آگاہ کرے۔

'پیمرا کا اقدام لوگوں کو ٹی وی سے دور کر رہا ہے'

دوسری جانب اداکاروں کی رجسٹرڈ تنظیم 'ایکٹ' کی چیئر پرسن اور اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے اس معاملے پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا کو اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں نسلی تعصب، سماجی مسائل اور جبر کے خلاف لوگ کھڑے ہو رہے ہیں، پیمرا کا ایسے مناظر پر انگلی اٹھانا نہ صرف بے ضرر ہے بلکہ غیر اہم اور مضحکہ خیز بھی ہے۔

'اب تو لگتا ہے کہ جیسے سینسر شپ ہے ہی نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:19:25 0:00

عتیقہ اوڈھو کے خیال میں اس قسم کے اقدام سے پیمرا مقامی ٹی وی کی خدمت نہیں بلکہ لوگوں کو اس سے دور کر رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دیکھنے والوں کے پاس اب مقامی اور انٹرنیشنل چینلز کے ساتھ ساتھ یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز کی بھرمار ہے۔ مقامی ٹی وی پر پابندی لگانے کی وجہ سے ناظرین ان کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔

'پیمرا کے نئے نوٹس کو بطور چیلنج سمجھنا چاہیے'

اداکار و ہدایت کار سیف حسن کا کہنا تھا کہ ان ہدایات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایسی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، جو لوگ اچھا کام کرنا جانتے ہیں انہیں ان سے فرق نہیں پڑتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرنے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر پیمرا نے کہا ہے کہ انہیں عوام سے شکایات موصول ہوئی ہیں تو اس میں بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

ان کے بقول ماضی میں بھی 'اڈاری' اور 'پیار کے صدقے' جیسے سبق آموز ڈراموں کے خلاف عوام کی ایک مخصوص تعداد شکایت ریکارڈ کرا چکی ہے۔

سیف حسن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس طرح کے احکامات کو چیلنج کے طور پر لینا چاہیے اور اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ اس طرح کی پابندیاں ہمارے لیے وقتی طور پر مشکلات کھڑی کریں گی لیکن ہم پہلے بھی اس سے نکل چکے ہیں اور آگے بھی اس سے نکل جائیں گے۔

ہدایت کار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے سامنے ایران کے فلم سازوں کی مثال موجود ہے جن پر جتنی پابندی لگی انہوں نے اتنا ہی بہتر کام کیا۔

ڈرامہ نگار مصطفیٰ آفریدی سمجھتے ہیں کہ اچھا لٹریچر، اچھی فلم اور اچھی پینٹنگ سب جبر کے ماحول سے ہی نکل کر سامنے آتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب آپ پر کوئی پابندی نہیں ہوتی تو کوئی اپنے کمفرٹ زون سے باہر بھی نہیں نکلتا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں نے ایسے ڈرامے نہیں بنائے انہیں پریشان بھی نہیں ہونا چاہیے۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG