اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کےرکن ممالک نے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ کا حامل ہونے پر امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جمعہ کے روز جنیوا میں 47 رکنی کونسل کے اجلاس کے دوران امریکہ کو اس وقت شدید ہزیمت اٹھانا پڑی جب اس کے دوست اور دشمن تمام ممالک نے یک آواز ہو کر امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔
روس، چین، انڈونیشیا، برطانیہ، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ سمیت کئی ممالک نے اجلاس کے دوران امریکہ سے سزائے موت کے قانون کے خاتمے، بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ ، نسلی امتیاز کے خاتمے اور امریکی افواج کی جانب سے دیگر علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی کی تحقیقات کرانے کے مطالبات کیے۔
دورانِ اجلاس تنظیم کے رکن ممالک نے متفقہ طور پر گوانتانامو میں قائم جنگی قید خانے کی فوری بندش اور وہاں زیرِ حراست رکھے جانے والے قیدیوں کی صورتِ حال بہتر بنانے کے مطالبات بھی پیش کیے۔
تاہم کونسل کے اجلاس کے دوران کی جانے والی تنقید کے جواب میں امریکی نائب وزیرِ خارجہ ایستھر بریمر کا کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ "صرف اپنے عوام کے سامنے جواب دہ ہے"۔ تاہم انہوں نے مسائل اور تنازعات کے حل کیلیے دیگر اقوام سے بات چیت کی ضرورت کو تسلیم کیا۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے رکن ممالک کی جانب سے مذکورہ تنقید امریکہ میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کے جائزے کے دوران سامنے آئی۔ رکن ممالک میں انسانی حقوق کے حوالے سے کیا جانے والا مذکورہ جائزہ تنظیم کی جانب سے اپنی نوعیت کی پہلی کاروائی ہے۔
جمعہ کے روز ہونے والے اجلاس میں بحث سے قبل امریکی مندوبین کی جانب سے ایک رپورٹ جمع کرائی گئی تھی جس میں امریکہ میں بسنے والے سیاہ فام اور ہسپانوی نژاد شہریوں کے خلاف نسلی تفریق برتے جانے اور امریکی معاشرے میں تارکینِ وطن کو درپیش مشکلات کا اعتراف کیا گیا۔
تاہم رپورٹ میں امریکہ میں اظہارِ رائے کی آزادی، مذہبی رواداری، تنظیم سازی کی آزادی اور ملزمان کو مقدمے کی کاروائی کے دوران قانونی سہولیات کی فراہمی جیسے معاملات کو قابلِ اطمینان قرار دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ القاعدہ کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے ، تاہم اس کے باوجود اس کی جانب سے مسلح تصادم کے دوران تمام ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی جائے گی۔
تاہم امریکی سرکار کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کی رد میں انسانی حقوق کیلیےسرگرم تنظیموں کی جانب سے بھی 400 صفحات پہ مشتمل ایک رپورٹ کونسل کے سامنے پیش کی گئی جس میں دعوی کیا گیا کہ امریکہ میں اب بھی نسلی، علاقائی اورجنسی بنیادوں پر امتیاز برتا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کیلیے امریکی نائب وزیرِ خارجہ مائیکل پوزنر نے بھی امریکی جمہوریت میں موجود "خامیوں" کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قانونی مشیر ہیرالڈ کوہ نے کہا ہے کہ امریکہ "نہ تو تشدد کرتا ہے اور نہ کرے گا"۔
اقوامِ متحدہ کی کونسل کی جانب سے امریکہ میں انسانی حقوق کا جائزہ ایک ایسے وقت میں لیا جارہا ہے جب کچھ ہی ہفتے قبل "وکی لیکس" نامی ویب سائٹ نے افغانستان اور عراق میں ہونے والی جنگوں سے متعلق امریکی فوج کی ہزاروں خفیہ دستاویزات انٹرنیٹ پہ جاری کی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جاری کی گئی دستاویزات میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قیدیوں اور عام شہریوں کے حقوق کی پامالی کے انکشافات موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1