صدر اوباما ایشیا کا دورہ کر رہے ہوں گے تو اس دوران فوج کے زیر تسلط برما میں دو اہم واقعات ہوں گے۔ سات نومبر کو دو عشروں بعد برما میں پہلا عام انتخاب ہوگا۔ آخری انتخاب جو 1990ء میں ہوا تھا، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے بھاری اکثریت سے جیت لیا تھا لیکن فوج نے اسے اقتدار سنبھالنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کی لیڈر Aung San Suu Kyi نے جنھیں 1991ء میں امن کا نوبل انعام ملا تھا، گذشتہ دوعشروں کا بیشتر حصہ اپنے گھر میں نظر بندی کی حالت میں گزارا ہے۔ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا، تو برما کی فوج نے اس پارٹی کو جبراً توڑ دیا۔ امریکہ، مغربی ممالک اور انسانی حقوق کے گروپوں کا خیال ہے کہ یہ انتخابات محض ڈھکوسلا ہوں گے۔
13نومبر کو جب صدر اوباما جاپان میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے جاپان میں ہوں گے، Aung San Suu Kyi کی گھر میں نظر بندی کی مدت ختم ہو جائے گی۔ اس بارے میں عام طور سے شک و شبہ پایا جاتا ہے کہ فوجی حکومت انہیں رہا کرے گی۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان PJ Crowley نے بہت سخت الفاظ میں برما کی فوجی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ وہ انتخاب کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انسانی حقوق کے گروپ صدر اوباما پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے بھارت کے قیام کے دوران، برما میں اور سری لنکا میں انسانی حقوق کے مسائل کو پس پشت نہ ڈالیں۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے کے ایشیا ڈائریکٹر، T. Kumar کہتے ہیں کہ ’’ایمنیسٹی انٹرنیشنل صدر اوباما پر زور دے رہی ہے کہ وہ اپنے بھارت کے دورے میں، برما اور سری لنکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سوال اٹھا ئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ یہ سوال پرائیویٹ بات چیت میں اٹھائیں گے یا کھلے عام۔ لیکن ہم میڈیا سے اور پریس سے توقع کرتے ہیں کہ وہ سوالات پوچھے اور ہم صدر اوباما پر زور دیتے ہیں کہ جب یہ سوالات اٹھائے جائیں تو وہ برما میں انتخابات اور Aung San Suu Kyi کی رہائی کے بارے میں واضح پیغام دیں‘‘۔
انتظامیہ نے برما کی فوج کے ساتھ اس اُمید پر رابطے اور بات چیت کی پالیسی اپنائی ہے کہ یہ طریقہ Aung San Suu Kyi اور سیاسی قیدیوں کو رہائی دلانے میں زیادہ موئثر ثابت ہوگا۔ امریکہ نے برما کے خلاف یکطرفہ اقتصادی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔
واشنگٹن میں قائم Freedom Now نامی تنظیم کے اٹارنی Jared Genser کہتے ہیں کہ رابطے کی پالیسی غیر موئثر ثابت ہوئی ہے۔ وہ کہتےہیں کہ صدر اوباما کو زیادہ سخت رویہ اپنانا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ہماری پالیسی کا بھی اقوام متحدہ کی 20 سالہ پرانی پالیسی جیسا حشر ہوا ہے۔ ہم نے کوئی بنچ مارکس، وقت کی کوئی حد، برما کی حکومت کے ساتھ اپنے رابطوں کے نتائج ، مقرر نہیں کیے تھے۔ ان حالات میں ہمیں بار بار اندازہ ہوا ہے کہ جب تک یہ عناصر شامل نہ ہوں، صرف رابطوں سے کام نہیں چلے گا‘‘۔
اس سال کے شروع میں امریکی محکمۂ خارجہ کے انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور،William Burns نے کہا تھا کہ ایسے علاقے میں جہاں Aung San Suu Kyi جیسی لیڈر گاندھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمہوریت کے لیے جد وجہد کر رہی ہیں بھارت کی آواز اہم ہے۔ تاہم وہائٹ ہاؤس کی حالیہ بریفنگ میں، Burns نے اس سوال کا مبہم سا جواب دیا کہ آیا مسٹر اوباما وزیرِ اعظم سنگھ کے ساتھ بات چیت میں برما کا سوال اٹھائیں گے۔ لیکن انھوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے مسئلے پر امریکہ برابر زور دیتا رہے گا۔
ریاست ہوائی کے ایسٹ ویسٹ سینٹر میں تقریر کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے اس طرف اشارہ دیا کہ واشنگٹن ، برما کی فوج پر دباؤ ڈالتا رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ چند برسوں میں ہم نے جو ایک نئی چیز سیکھی ہے وہ یہ ہے کہ جمہوریت محض انتخابات کا نام نہیں ہے۔ ہم برما کے لیڈروں پر واضح کر دیں گے، وہ چاہے نئے لیڈر ہوں یا پرانے، کہ انہیں ماضی کی پالیسیوں سے ناتا توڑنا پڑے گا۔
وزیر ِ خارجہ کلنٹن اپنے تقریباً دو ہفتے کے دورے کے آغاز پر تقریر کر رہی تھیں۔ اس دورے میں وہ ایشیا اور بحرالکاہل کے ملکوں میں جائیں گی۔ اس دورے کا کچھ حصہ ایسے وقت ہو گا جب صدر اوباما بھی وہاں موجود ہوں گے۔