امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو دیا جانے والا مجوزہ قرض چین سے ملنے والی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہونے کا امکان نہیں ہے۔
یہ بات امریکی محکمۂ خزانہ کے انڈر سیکریٹری برائے بین الاقوامی امور ڈیوڈ ملپاس نے منگل کو امریکی سینیٹ کی خارجہ امور سے متعلق ایک سب کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔
ڈیوڈ ملپاس کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نے چین کی جانب سے ملنے والے بیشتر قرضوں کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔
لیکن ان کے بقول امریکی حکام کے خیال میں پاکستان کو ملنے والے چینی قرضے آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کی ادائیگی کے بعد ہی واجب الادا ہوں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے رواں سال اگست میں برسرِ اقتدار آتے ہی ملک کو درپیش معاشی بحران کے باعث بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے رجوع کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
پاکستانی حکومت کے اس عندیے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو دیے جانے والے قرض کی رقم چین کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوسکتی ہے جس پر امریکہ کو اعتراض ہے۔
پاکستانی حکومت بارہا واضح کرچکی ہے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا کیوں کہ یہ قرضے پاکستانی حکام کے بقول کئی برس بعد واجب الادا ہوں گے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت چینی حکومت پاکستان میں 60 ارب ڈالر کی لاگت سے سڑکوں، بندرگاہوں، ریلوے اور صنعتی مراکز کے قیام اور ترقی کے ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
ان منصوبوں پر آنے والی لاگت کا ایک بڑا حصہ چین پاکستان کو بطور قرض دے رہا ہے جس کی شرائط پر امریکہ اور مغربی ملکوں کو تحفظات رہے ہیں۔
منگل کو اپنی بریفنگ میں ڈیوڈ ملپاس کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں میں عدم شفافیت صرف پاکستان کے معاملے تک ہی محدود نہیں، بلکہ چین دیگر ملکوں کو دیے جانے والے قرض سے متعلق بہت بنیادی معلومات – مثلاً شرحِ سود اور واجب الادا ہونے کی مدت –بتانے سے بھی عموماً گریز کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری بات چیت کا مقصدایک ایسے منصوبے پر اتفاق کرنا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں دیرپا معاشی اصلاحات ہوسکیں اور اس کے مالی معاملات مستحکم رخ اختیار کریں۔
انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے امریکی محکمۂ خزانہ کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے بھی حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے دوران وفد کی اعلیٰ پاکستانی حکام سے بات چیت ہوئی تھی۔
پاکستانی حکومت نے تاحال یہ واضح نہیں کیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے کتنا قرض لینا چاہتی ہے۔ لیکن بعض مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان حکومت کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے چھ ارب ڈالر تک کی ضرورت ہوسکتی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ نئے قرض کے پیکج پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے پر اتفاق آئندہ سال جنوری کے وسط تک ہوسکتا ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو یہ 2013ء کے بعد پاکستان کے لیے عالمی ادارے کی جانب سے دوسرا بیل آؤٹ ہوگا۔