وفاقی وزیرِ خزانہ اسد عمر نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان تیزی سے دیوالیہ ہونے کی جانب جارہا ہے لیکن ان کے بقول حکومت ملکی معیشت کی نازک صورتِ حال سے واقف ہے اور معیشت کو سنبھالا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہفتے کو کراچی میں اسٹاک مارکیٹ کے دورے کے دوران تاجروں سے خطاب میں وزیرِ خزانہ نے اعتراف کیا کہ معیشت کے عدم استحکام کی وجہ سے ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ڈھائی ارب ڈالر سے بڑھ کر 18 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بیرونی ادائیگیوں کی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کو 27 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مانیٹری اور مالیاتی اقدامات سے خسارے کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ اس سال پاکستان کو 9 ارب ڈالرکی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ 7 سے 8 ماہ میں ڈالر کی قدر میں 27 فی صد تک کمی واقع ہوگی۔
تاجروں کے سوالوں کے جواب میں وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ ملکی معیشت کی خراب صورتِ حال کے باعث حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اب تک 13 بار آئی ایم ایف کے پاس امداد کے لیے گیا ہے لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس بار حکومت آخری دفعہ آئی ایم ایف سے رجوع کر رہی ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ میڈیا میں اسٹاک مارکیٹ کی صورتِ حال بہت خراب دکھائی جاتی ہے لیکن ان کے بقول حقیقت میں ایسا نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مارکیٹ ریگولیٹ ہونی چاہے، اوور ریگولیٹ نہیں۔ کاروبار میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے لیے بھرپور اقدامات ہوں گے۔ اسٹاک مارکیٹ میں بہترین گروتھ ہے۔ بہترین نتائج کے لیے محنت جاری رکھنی چاہیے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونا شروع ہوگیا ہے۔
اسد عمر نے تاجروں سے خطاب میں کہا کہ معاشی آزادی کے بغیر قومی سلامتی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ٹیکس نیٹ میں لوگوں کو شامل کرنے کے لیے ایف بی آر اپنی فورس قائم کرنا چاہتا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ خواہشات کی بنا پر مسائل حل نہیں ہوتے۔ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ملکی برآمدات بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ معیشت مستحکم ہوگی تو اسٹاک مارکیٹ بھی مستحکم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ حوالہ ہنڈی کے ذریعے ٹریڈنگ کی جا رہی ہے جسے روکنے کے لیے قانون کو سخت کیا جا رہا ہے۔ بیرونِ ملک سے پیسہ لانے کے لیے بھی قانون بنانے کا کام مکمل ہوچکا ہے۔