رسائی کے لنکس

امریکہ میں ممکنہ معاشی سست روی کے اثرات؛ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے یا بری؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • امریکی مرکزی بینک نے جولائی کے آخر میں شرح سود میں کمی کا فیصلہ نہیں کیا اور اسے برقرار رکھا ہے۔
  • مبصرین کے مطابق اس فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فی الحال مہنگائی کی لہر میں کمی یا کم از کم استحکام دیکھنے میں نہیں آیا۔
  • امریکی محکمۂ محنت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
  • ماہرین کے مطابق جب بھی بڑی معیشتوں میں سست روی دیکھی جاتی ہے تو وہ ترقی پذیر معیشتوں سے سرمایہ نکالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

آنے والے چند ماہ میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ میں معاشی سست روی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ یہ سست روی ایسے وقت میں آرہی ہے جب کرونا وباٗ کے بعد پیدا ہونے والے معاشی تعطل کو گزرے محض دو سال ہی گزرے ہیں۔

ایسے میں سوالات یہ اٹھ رہے ہیں کہ امریکہ میں معاشی سست روی کے اثرات پاکستان پر کیا مرتب ہوسکتے ہیں اور کیا اس سے پاکستان کی معیشت بھی متاثر ہوسکتی ہے؟ جس میں گزشتہ چند برس میں کافی ہچکولے کھانے کے بعد کسی حد تک استحکام کی علامات نظر آنے لگی ہیں۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ پس منظر جاننا ضروری ہے۔ کسی بھی ملک میں مرکزی بینک شرح سود اس وقت بڑھا دیتا ہے جب وہاں مہنگائی بڑھ جائے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے شرح سود بڑھائی جاتی ہے۔ تاکہ لوگ کم خرچ کریں اور یوں طلب اور رسد کا توازن کسی حد تک برقرار رہے۔

حال ہی میں برطانیہ کے مرکزی بینک یعنی بینک آف انگلینڈ نے ملک میں شرح سود میں کمی لانے کا فیصلہ کیا اور اس میں 25 بیسز پوائنٹس کی کمی لاکر شرح سود پانچ فی صد کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل ملک میں شرح سوُد 14 سال کی بلند ترین سطح پر تھی۔

دوسری جانب امریکی مرکزی بینک نے جولائی کے آخر میں اجلاس میں شرح سود میں کمی کا فیصلہ نہیں کیا اور اسے 5 اعشاریہ 25 سے 5 اعشاریہ 50 پر ہی برقرار رکھا گیا۔

یہ فیصلہ مارکیٹ کی توقعات کے برعکس دکھائی دیا۔ بعض مبصرین کے مطابق اس فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں پالیسی سازوں کی توقعات کے مطابق فی الحال مہنگائی کی لہر میں کمی یا کم از کم استحکام دیکھنے میں نہیں آیا اور گزشتہ دو برس سے وہاں شرح سود میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔

امریکی معیشت میں سست روی کے خدشات کیوں؟

امریکہ میں معاشی سست روی کے خدشات کی ایک وجہ حال ہی میں سامنے آنے والی امریکی محکمۂ محنت کی وہ رپورٹ بھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور جولائی میں یہ شرح چار اعشاریہ تین فی صد پر جا پہنچی ہے جو اس سے قبل جنوری میں تین اعشاریہ سات فی صد تھی۔

اسی طرح بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے جولائی 2024 کی معاشی آوٹ لُک رپورٹ میں بھی اس بات کی پیش گوئی کی ہے کہ امریکی معیشت سال 2024 میں دو اعشاریہ 4 فی صد کی رفتار سے ترقی کرے گی۔

اس سے قبل اپریل میں کی جانے والی پیش گوئی کے مطابق امریکہ کی معاشی ترقی کی رفتار 2 اعشاریہ 7 فیصد بتائی گئی تھی۔

ان اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکی معیشت آنے والے چند ماہ میں سست روی کا شکار ہو سکتی ہے اور انہی خدشات کے پیش نظر دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس میں ان دنوں غیر یقینی کے باعث مندی کا رحجان دیکھا جا رہا ہے۔

پاکستان پر اس کے اثرات منفی ہوں گے یا مثبت؟

ماہرِ معیشت عبد العظیم خان کا کہنا ہے کہ اس وقت کئی عوامل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ان کے بقول پاکستان کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ جولائی کے بعد دنیا میں تیل کی قیمتوں میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ خام تیل برینٹ کی قیمت یکم جولائی کو 84 اعشاریہ 74 ڈالر فی بیرل تک جانے کے بعد نیچے آئی ہے اور اس وقت 80 ڈالر فی بیرل کے اردگرد ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں یہ 93 ڈالر فی بیرل تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی آ رہی ہے اور اس کا اثر 14 اگست کو حکومت پاکستان کی جانب سے تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس کی وجہ سے چین سمیت امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں تیل کی کھپت میں کچھ کمی آنی ہے اور اس کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں پائی جانے والی کشیدگی کے بڑھ جانے کے خطرات بھی موجود ہیں۔ لیکن یہ پاکستان جیسی معیشت کے لئے بہتر ثابت ہو رہا ہے کیوں کہ اس کا دار و مدار تیل کی درآمد پر بہت زیادہ ہے اور پاکستان کو اپنی توانائی، نقل و حمل اور دیگر ضروریات کے لیے بھاری زرِ مبادلہ خرچ کرکے تیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔

عبد العظیم خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے ایک فائدہ اور بھی ہوسکتا ہے۔ امریکہ میں آنے والے دنوں میں شرح سود میں کمی ہوتی ہے تو اس سے ڈالر مزید سستا ہوگا اور سستا ڈالر پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ یا کم از کم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ کیوں کہ ڈالر سستا ہونے سے پاکستان میں ایکسچینج ریٹ پر دباو میں کمی آسکتی ہے۔

ان کے مطابق اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں مزید کمی کی توقع کی جاسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں مرکزی بینک کے پاس یہ موقع ہوگا کہ ملک میں شرح سود میں کمی لائی جائے جس سے کاروباری سرگرمیوں میں اس وقت موجود جمود ختم کرنے میں معاونت مل سکتی ہے۔

خیال رہے کہ اسٹیٹ بینک نے جولائی کے آخر میں مسلسل دوسری بار ملک میں شرح سود کو کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس وقت بھی شرح سود 19 اعشاریہ 50 فی صد پر ہے۔ تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ اگر ملک میں مہنگائی کا منظر نامہ بہتر ہوا تو ستمبر میں اس میں مزید کمی کی جاسکتی ہے۔

ماہرینِ معیشت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کو سب سے اہم چیلنج یہ در پیش ہے کہ وہ کس طرح اپنی بیرونی ادائیگیاں بر وقت ممکن بناتا ہے اور اسی وجہ سے اسے حال ہی میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط کے ساتھ 38 ماہ کے نئے معاہدے میں جانا پڑا ہے جس سے پاکستان کو سات ارب ڈالر ملیں گے اور اس رقم سے وہ اپنے بیرونی واجب الادا قرضے چکائے گا۔

ماہرین کے خیال میں اگر امریکہ سمیت دنیا بھر میں معاشی سست روی آتی ہے جس کی نشاندہی کی جا رہی ہے تو عالمی سطح پر شرح سود میں کمی سے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف مل سکتا ہے۔

امریکہ میں معاشی سست روی کو پاکستان کو نقصان

دوسری جانب ایک اور ماہرِ اقتصادیات سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ جب بھی دنیا کی بڑی معیشتوں میں سست روی دیکھی جاتی ہے تو وہ ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں سے سرمایہ نکالنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسے میں اگر امریکہ میں معاشی سست روی کے اثرات نظر آئے تو یقینی طور پر اس سے پاکستان جیسے ممالک سے سرمایہ کار نکلنے ہی کو ترجیح دیں گے کیوں کہ انہیں وہ سرمایہ امریکی بینکوں میں رکھنے سے بہتر منافع مل سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت سرمایہ کاری پہلے ہی دو ارب ڈالر سالانہ سے بھی کم ریکارڈ کی جا رہی ہے جو بہت ہی کم ہے اور ایسے میں حکومت کی جانب سے ملک میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوششوں کو ایک اور دھچکا لگ سکتا ہے۔

سلمان نقوی کے بقول امریکہ سمیت دنیا کے بڑے ممالک میں معاشی سست روی پاکستان جیسی معیشت کی برآمدات میں کمی کی بری خبر بھی لاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کے بڑے اور مضبوط تجارتی شراکت داروں میں شمار ہوتا ہے اور وہاں معاشی سست روی کا مطلب ہوگا کہ وہاں کے لوگ کم خرچ کریں گے جس کے نتیجے میں پاکستان سے برآمدات میں کمی ہو سکتی ہے۔

گزشتہ مالی سال میں پاکستان نے اپنی برآمدات کا 17 فی صد امریکہ برآمد کیا تھا اور مالی سال 2023 میں یہ شرح 18 فی صد سے بھی بلند تھی۔ یعنی امریکہ کے لیے پاکستان کی برآمدات مجموعی برآمدات کا لگ بھگ پانچواں حصہ بنتی ہے۔

پاکستان کی برآمدات پہلے ہی گزشتہ کافی برس سے جمود کا شکار ہیں اور 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال 2024 میں اس میں نو فی صد اضافے کے بعد 38 ارب 82 کروڑ ڈالر کو پہنچی ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کی درآمدات 43 ارب ڈالر سے زائد رہیں اور ایسے میں امریکی معیشت میں سست روی سے اس کے تجارتی خسارے میں مزید اضافے کے خدشات پیدا ہوسکتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG