رسائی کے لنکس

کلکتہ میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے خلاف ملک گیر احتجاج، تحقیقات کا حکم


  • خاتون جونیئر ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کا واقعہ کلکتہ کے ایک سرکاری اسپتال میں پیش آیا۔
  • واقعے کے خلاف ڈاکٹروں نے منگل کو مختلف ریاستوں میں ہڑتال کی جس سے طبی خدمات متاثر ہوئیں۔
  • اس معاملے میں میڈیکل کالج کے پرنسپل سے سب سے پہلے تفتیش کی جانی چاہیے: عدالت
  • پولیس نے ملزم سنجے رائے کو گرفتار کر لیا ہے جس نے دورانِ تفتیش پولیس کو کہا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اسے پھانسی دے دیں۔

نئی دہلی — بھارت کے شہر کلکتہ کے ایک سرکاری اسپتال 'آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل' میں ایک 31 سالہ خاتون جونیئر ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعے کے خلاف ملک گیر احتجاج ہو رہا ہے۔ اس واقعے پر کلکتہ ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو جانچ کا حکم بھی دیا ہے۔

ریزیڈنٹ ڈاکٹروں نے منگل کو ملک کی مختلف ریاستوں میں ہڑتال کی جس کی وجہ سے اسپتالوں میں طبی خدمات بری طرح متاثر رہیں۔

انسانی حقوق کی متعدد تنظیمیں بھی اس واقعے کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ یہ احتجاج کلکتہ کے علاوہ دہلی اور دیگر شہروں میں بھی ہو رہا ہے۔

کلکتہ ہائی کورٹ نے اس معاملے پر دائر ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں میڈیکل کالج کے پرنسپل سے سب سے پہلے تفتیش کی جانی چاہیے۔

جونیئر ڈاکٹروں کی تنظیم دی فیڈریشن آف ریزیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (ایف او آر ڈی اے) نے مرکزی وزیرِ صحت جے پی نڈا کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ یہ واقعہ ریزیڈنٹ ڈاکٹر برادری کی تاریخ میں شاید سب سے بھیانک واقعہ ہے۔

تنظیم نے ان تمام ذمہ داروں کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے جو ڈیوٹی پر موجود خاتون ڈاکٹر کی زندگی اور عصمت کے تحفظ میں ناکام رہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) سے اس معاملے کی جانچ کرائی جائے اور ہڑتالی ڈاکٹرز کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ریاستی پولیس کو اس معاملے کی جانچ کے لیے 18 اگست تک کا وقت دیا ہے۔

دوسری جانب کلکتہ ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو ریپ اور قتل کے واقعے کی جانچ کا حکم دے دیا ہے۔

پولیس نے ملزم سنجے رائے کو گرفتار کر لیا ہے جس نے دورانِ تفتیش پولیس کو کہا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اسے پھانسی دے دیں۔

پولیس کے مطابق ملزم ایک ٹرینڈ باکسر ہے اور وہ محکمۂ پولیس میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کر رہا تھا۔

پولیس نے ملزم کی تلاش کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی تھی اور چھ گھنٹے کے اندر اسے گرفتار کر لیا تھا۔ ملزم کو 2019 میں محکمۂ پولیس میں عارضی رضاکار کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا اور واردات کے وقت وہ اسپتال میں تعینات تھا۔

واضح رہے کہ 9 اگست کو کلکتہ کے ’آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل‘ کے سمینار ہال میں خاتون ڈاکٹر کی مسخ شدہ لاش پائی گئی تھی۔

لاش کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر کو ریپ کے بعد گلا گھونٹ کر مارا گیا۔ خاتون ڈاکٹر کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی اور دونوں آنکھوں اور پرائیوٹ پارٹس سے خون بہہ رہا تھا۔ چہرے پر اتنی بری طرح ضرب لگائی گئی تھی کہ چشمہ ٹوٹ گیا تھا اور اس کے ٹکڑے آنکھوں میں گھس گئے تھے۔

رپورٹ میں پیٹ، ہونٹ، انگلیوں اور بائیں ٹانگ میں بھی چوٹ کے نشان پائے گئے۔ سر کو دیوار کے ساتھ زور سے ٹکرایا گیا تاکہ وہ چیخ نہ پائے۔ اس کے علاوہ ناک اور منہ پر بھی زخم موجود تھے۔ چہرے پر ناخنوں کے نشانات تھے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملزم نے چہرے پر خراش لگائی ہو۔

مقتولہ کے اہلِ خانہ کا الزام ہے کہ شروع میں ایک سینئر پولیس اہل کار کی جانب سے ان کو اطلاع دی گئی کہ ان کی بیٹی نے خودکشی کر لی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن (اے آئی ڈی ڈبلیو اے) کی جانب سے کلکتہ اور دہلی میں مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے۔

تنظیم کی جنرل سیکریٹری مریم دھاولے کا کہنا ہے کہ جس دن یہ واقعہ ہوا وہ کلکتہ ہی میں تھیں۔ یہ واقعہ دہلی کے نربھیا واقعے کی یاد دلاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ کلکتہ شہر کے قلب اور انتہائی مصروف علاقے میں واقع سرکاری اسپتال میں ہوا ہے۔ ایسے مقامات پر بھی خواتین کا محفوظ نہ ہونا یہ بتاتا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے تئیں حکومتیں کتنی سنجیدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں عام طور پولیس پوسٹ مارٹم کے بعد لاش لے جاتی ہے اور جلا دیتی ہے تاکہ کوئی ثبوت نہ رہے۔ اس کیس میں بھی پولیس پوسٹ مارٹم کے بعد ڈاکٹر کی لاش لے کر جا رہی تھی لیکن بہت زیادہ احتجاج کی وجہ سے پولیس ایسا نہیں کر پائی۔

ان کے مطابق اس سرکاری اسپتال میں خاتون ڈاکٹروں کے عدم تحفظ کا معاملہ پہلے بھی اٹھتا رہا ہے۔ وہاں کی خاتون ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران اسپتال کے انتظام میں بہتری کے لیے انتظامیہ کو متعدد میمورنڈم دیے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں خواتین کے خلاف جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چوں کہ ایسے لوگوں کے سیاست دانوں سے تعلقات ہوتے ہیں، اس لیے سیاست داں ان کو بچانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مریم دھاولے نے بتایا کہ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی جانب سے اس وقت پورے مغربی بنگال میں غیر معینہ مدت کا دھرنا دیا جا رہا ہے۔ الگ الگ علاقوں میں جا کر خواتین سے بات کی جا رہی ہے اور اس معاملے پر لوگوں میں بیداری لانے اور واقعے کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول تنظیم دہلی میں بھی احتجاج کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ اس معاملے کے سامنے آنے پر آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کے پرنسپل ڈاکٹر سندیپ گھوش نے پیر کو استعفیٰ دے دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد ان کو سی این ایم کالج کا پرنسپل بنا دیا گیا۔

اس معاملے پر دائر ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ پرنسپل کو استعفیٰ دینے کے بعد دوسرے کالج کا پرنسپل کیوں بنایا گیا؟ عدالت نے پرنسپل سے کہا کہ وہ چھٹی پر چلے جائیں ورنہ ان کو استعفیٰ دینے کی ہدایت دی جائے گی۔

عدالت نے اس واقعے کو انتہائی خوف ناک اور ڈاکٹروں کے احتجاج کو جائز قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ پرنسپل اسپتال کے تمام ڈاکٹروں کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ اگر وہ حساسیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق ملزم سنجے رائے کلکتہ پولیس میں سول والنٹئر ہے۔ وہ ایک عادی مجرم ہے اور خواتین کے خلاف جرائم کی ایک تاریخ رکھتا ہے۔

پولیس کو ملزم کے موبائل فون میں فحش ویڈیوز ملی ہیں۔ ملزم کے پڑوسیوں کے مطابق اس نے چار شادیاں کیں لیکن تین بیویاں سنجے کے نازیبا سلوک کی وجہ سے چھوڑ کر چلی گئیں اور چوتھی بیوی کی گزشتہ سال کینسر میں موت ہو گئی۔

پڑوسیوں کے مطابق ملزم رات کو دیر سے گھر آتا اور عموماً نشے کی حالت میں ہوتا۔ اس کی ایک ساس نے اس کے خلاف تشدد کا کیس دائر کیا ہے جس کے مطابق سنجے نے کئی خواتین کو ملازمت دلانے کے نام پر دھوکہ دیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG