حماس اور اسرائیل کے مابین آٹھ روز تک ایک دوسرے پر راکیٹ اور بم داغنے کا جو سلسلہ جاری رہا ، اُس کے خاتمے پر طے پانے والی جنگ بندی پر ’نیو یارک ٹائمز‘ ایک ادرائے میں کہتا ہے کہ اب دونوں فریقوں کو تشدّد کے اُس چکّر سے سنبھلنے کا موقع ملے گا جس میں 140 فلسطینیوں اور پانچ اسرائیلیوں کی جانیں گئیں۔
اخبار کہتا ہے کہ محض اس جنگ بندی کو برقرار رکھنے سےاس وقت تک حقیقی استحکام قائم نہیں ہوگا جب تک دو مملکتوں کے قیام کے حل کے مقصد سے سنجیدہ مساعی نہیں کی جاتیں۔
جنگ بندی کی شرائط کے تحت اسرائیل مان گیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پرتمام حملے بند کرے گا اور مخصوص افراد کو نشانہ نہیں بنا ئے گا۔غزّہ کے لوگوں کی شکایا ت رفع کی جائیں گی، خاص طور پر سرحد پر کنٹرول کے بارے میں ، جس کی وجہ سے وہاں لوگوں اور مال کی آمدورفت بند ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ اہم بات واضح نہیں ہےکہ آیا اس سمجھوتے کی رو سے مصر سے لگنے والی سرنگوں کے راستے اسلحے کی سمگلنگ بند ہوگی یا نہیں، تاکہ حماس دوبارہ ان ہتھیاروں کو ذخیرہ نہ کرسکے ، جو وہ اسرائیل کے خلاف استعمال کرتا آیا ہے۔
جنگ بندی کے اعلان کے بعد اسرائیل نے اس جنگ کےفوائد گنواتے ہوئے کہا کہ حماس کے ایک چوٹی کے لیڈر کو ہلاک کیا گیا اور1500 دیگر اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جن میں ایران کے فراہم کردہ ترقی یافتہ مزائیل شامل ہیں۔
اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جنگ بندی کے اس معاہدے میں حماس کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گئی ہے، جب کہ اس کی حریف تحریک کے لیڈر اور فلسطینی صدر محمود عباس کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے،حالانکہ مغرب نے ہمیشہ اُن پر ایک اعتدال پسند کی حیثیت سے تکیہ کیا ہے، اور اب یہ اور بھی مُشکل ہوتا جا رہا ہے کہ آیا اُن کے پاس وُہ قائدانہ صلاحیت ہے،جس کی بدولت وُہ اسرائیل کے ساتھ ایک طویل وقتی جامع سمجھوتے کرنے کی تلاش میں حماس کو دوبارہ فتح کے ساتھ متحد کر سکیں۔
’نیو یارک ٹائمز‘ نے مصری صدر محمد مورصی کے اس طریق کار کی تعریف کی ہے جو اس جنگ بندی کے حصول کے لئے اُنہوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے گو مگو رشتے اورحماس کے ساتھ ہمدردی کے جذبے کےدرمیان توازن قائم کرنے کے لئے اختیار کیا۔
اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر وُہ حماس کو مذاکرات کی میزپر نہ لاتےتو گھاٹے میں رہتے، کیونکہ اس صورت میں، امریکہ اور اس کے اتحادی جو حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں، یقینی طور پروہ بین الاقوامی مالی امداد روک دیتے جس کی اُنہیں اپنے ملک کی تعمیر نو کے لئے اشد ضرورت ہے۔ صدر مورصی کے لئے ترغیب کی اور بات یہ ہے کہ وُہ اسرائیل کے ساتھ تین عشرے پُرانے امن معاہدے کا تحفظ کریں۔ اس کے علاوہ ان کے لئے ایک اور امتحان یہ ہوگا کہ وہ کیونکر حماس سے جنگ بندی پر عمل درآمد کراتے ہیں۔
اخبار کی نظر میں ایک حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ صدر اوبامہ نے دو سال تک اسرائیلی فلسطینی مناقشے کو نظر انداز کرنے کے بعد سنجیدگی کے ساتھ امن کی تعمیر کا بٕیڑہ اُٹھایا ہے۔ اور اس مسلے کازیادہ پائدار حل تلاش کرنے کا عہد کیا ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ غزّہ کے فلسطینیوں نے جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے حماس کی فتح سے تعبیر کیاکہ اس سے اسرائیلی حملے بند ہو گئے ہیں، لیکن غزہ کی مسجدوں سے اللہ اکبر کی صد اؤں کے پس منظر میں اس گنجان آباد علاقے میں تباہی کے مناطر دکھائی دے رہے تھے جو آخری اسرائیلی حملے کا نتیجہ تھے اور جس نے درجنوں مکانوں ، دوکانوں اوردفاتر کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں اور جہازوں نے جن اہداف کو نشانہ بنایا تھا اسرائیل کے نزدیک ان سب کا کسی نہ کسی بہانے حماس کی حکومت سے تعلق تھا اور ان اہداف میں سرکاری دفاتر، کے علاوہ ، پُل ، کھیت ۔ سمگلنگ کے لئے استعمال ہونےوالی سرنگیں ، فوجی تربیتی سہولتیں، اور مشتبہ جنگجوؤ ں کے گھر شامل تھے۔
اخبار کہتاہے کہ ایک ہفتے کے اندر اس گنجان آبادی والے علاقے میں جو بربادی ہوئی ہے وُہ سابقہ برسوں کی اُس تباہی پر مُستزاد ہے۔ جس سے وہ ابھی سنبھلا بھی نہ تھا۔ غزہ کی 17 لاکھ آبادی پناہ گزینوں پر مشتمل ہے جو 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد جنگ سے جان بچا کر بھاگنے والوں کی اولاد ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران اس علاقے میں دس ہزار افراد گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں۔چار سال قبل کے اسرائیلی حملے میں بھی ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو گئے تھے۔
’اخبار بوسٹن گلوب‘ کی رپورٹ ہے کہ اسرائیل نے راکیٹوں کے حملوں سے بچنے کے لئے ایک دفاعی نظام وضع کیا ہے۔ آئیرن ڈوم نامی اس دفاعی نظام کی بدولت اسرائیل اور غزہ کے فلسطینیوں کے درمیان جنگ کے نوعیت بدل گئی ہے۔ چنانچہ، حماس نے اس جنگ میں اسرائیل کے خلاف جو ایک ہزار راکیٹ داغے تھے ان میں سے نوے فی صد کو اس نظام کی بدولت راستے ہی میں ناکارہ بنا دیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ اس جنگ میں ہلاک اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیلی بیشتر بچے رہے۔
لیکن اب جب جنگ بندی طے پائی ہے۔ اس بُحران سے نمٹنے میں اس نظام کی اہمیت کے بیان میں مبالغہ سے کام نہیں لینا چاہئیے۔اخبار کہتا ہے ، کہ اس نظام سے شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے میں کام کیا لیکن اس سے حماس کے مقاصد میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
اخبار کہتا ہے کہ محض اس جنگ بندی کو برقرار رکھنے سےاس وقت تک حقیقی استحکام قائم نہیں ہوگا جب تک دو مملکتوں کے قیام کے حل کے مقصد سے سنجیدہ مساعی نہیں کی جاتیں۔
جنگ بندی کی شرائط کے تحت اسرائیل مان گیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پرتمام حملے بند کرے گا اور مخصوص افراد کو نشانہ نہیں بنا ئے گا۔غزّہ کے لوگوں کی شکایا ت رفع کی جائیں گی، خاص طور پر سرحد پر کنٹرول کے بارے میں ، جس کی وجہ سے وہاں لوگوں اور مال کی آمدورفت بند ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ اہم بات واضح نہیں ہےکہ آیا اس سمجھوتے کی رو سے مصر سے لگنے والی سرنگوں کے راستے اسلحے کی سمگلنگ بند ہوگی یا نہیں، تاکہ حماس دوبارہ ان ہتھیاروں کو ذخیرہ نہ کرسکے ، جو وہ اسرائیل کے خلاف استعمال کرتا آیا ہے۔
جنگ بندی کے اعلان کے بعد اسرائیل نے اس جنگ کےفوائد گنواتے ہوئے کہا کہ حماس کے ایک چوٹی کے لیڈر کو ہلاک کیا گیا اور1500 دیگر اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جن میں ایران کے فراہم کردہ ترقی یافتہ مزائیل شامل ہیں۔
اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جنگ بندی کے اس معاہدے میں حماس کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گئی ہے، جب کہ اس کی حریف تحریک کے لیڈر اور فلسطینی صدر محمود عباس کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے،حالانکہ مغرب نے ہمیشہ اُن پر ایک اعتدال پسند کی حیثیت سے تکیہ کیا ہے، اور اب یہ اور بھی مُشکل ہوتا جا رہا ہے کہ آیا اُن کے پاس وُہ قائدانہ صلاحیت ہے،جس کی بدولت وُہ اسرائیل کے ساتھ ایک طویل وقتی جامع سمجھوتے کرنے کی تلاش میں حماس کو دوبارہ فتح کے ساتھ متحد کر سکیں۔
’نیو یارک ٹائمز‘ نے مصری صدر محمد مورصی کے اس طریق کار کی تعریف کی ہے جو اس جنگ بندی کے حصول کے لئے اُنہوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے گو مگو رشتے اورحماس کے ساتھ ہمدردی کے جذبے کےدرمیان توازن قائم کرنے کے لئے اختیار کیا۔
اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر وُہ حماس کو مذاکرات کی میزپر نہ لاتےتو گھاٹے میں رہتے، کیونکہ اس صورت میں، امریکہ اور اس کے اتحادی جو حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں، یقینی طور پروہ بین الاقوامی مالی امداد روک دیتے جس کی اُنہیں اپنے ملک کی تعمیر نو کے لئے اشد ضرورت ہے۔ صدر مورصی کے لئے ترغیب کی اور بات یہ ہے کہ وُہ اسرائیل کے ساتھ تین عشرے پُرانے امن معاہدے کا تحفظ کریں۔ اس کے علاوہ ان کے لئے ایک اور امتحان یہ ہوگا کہ وہ کیونکر حماس سے جنگ بندی پر عمل درآمد کراتے ہیں۔
اخبار کی نظر میں ایک حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ صدر اوبامہ نے دو سال تک اسرائیلی فلسطینی مناقشے کو نظر انداز کرنے کے بعد سنجیدگی کے ساتھ امن کی تعمیر کا بٕیڑہ اُٹھایا ہے۔ اور اس مسلے کازیادہ پائدار حل تلاش کرنے کا عہد کیا ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ غزّہ کے فلسطینیوں نے جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے حماس کی فتح سے تعبیر کیاکہ اس سے اسرائیلی حملے بند ہو گئے ہیں، لیکن غزہ کی مسجدوں سے اللہ اکبر کی صد اؤں کے پس منظر میں اس گنجان آباد علاقے میں تباہی کے مناطر دکھائی دے رہے تھے جو آخری اسرائیلی حملے کا نتیجہ تھے اور جس نے درجنوں مکانوں ، دوکانوں اوردفاتر کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں اور جہازوں نے جن اہداف کو نشانہ بنایا تھا اسرائیل کے نزدیک ان سب کا کسی نہ کسی بہانے حماس کی حکومت سے تعلق تھا اور ان اہداف میں سرکاری دفاتر، کے علاوہ ، پُل ، کھیت ۔ سمگلنگ کے لئے استعمال ہونےوالی سرنگیں ، فوجی تربیتی سہولتیں، اور مشتبہ جنگجوؤ ں کے گھر شامل تھے۔
اخبار کہتاہے کہ ایک ہفتے کے اندر اس گنجان آبادی والے علاقے میں جو بربادی ہوئی ہے وُہ سابقہ برسوں کی اُس تباہی پر مُستزاد ہے۔ جس سے وہ ابھی سنبھلا بھی نہ تھا۔ غزہ کی 17 لاکھ آبادی پناہ گزینوں پر مشتمل ہے جو 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد جنگ سے جان بچا کر بھاگنے والوں کی اولاد ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران اس علاقے میں دس ہزار افراد گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں۔چار سال قبل کے اسرائیلی حملے میں بھی ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو گئے تھے۔
’اخبار بوسٹن گلوب‘ کی رپورٹ ہے کہ اسرائیل نے راکیٹوں کے حملوں سے بچنے کے لئے ایک دفاعی نظام وضع کیا ہے۔ آئیرن ڈوم نامی اس دفاعی نظام کی بدولت اسرائیل اور غزہ کے فلسطینیوں کے درمیان جنگ کے نوعیت بدل گئی ہے۔ چنانچہ، حماس نے اس جنگ میں اسرائیل کے خلاف جو ایک ہزار راکیٹ داغے تھے ان میں سے نوے فی صد کو اس نظام کی بدولت راستے ہی میں ناکارہ بنا دیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ اس جنگ میں ہلاک اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیلی بیشتر بچے رہے۔
لیکن اب جب جنگ بندی طے پائی ہے۔ اس بُحران سے نمٹنے میں اس نظام کی اہمیت کے بیان میں مبالغہ سے کام نہیں لینا چاہئیے۔اخبار کہتا ہے ، کہ اس نظام سے شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے میں کام کیا لیکن اس سے حماس کے مقاصد میں کوئی فرق نہیں پڑا۔