واشنگٹن —
مصر کی ثالثی کے نتیجے میں بدھ کی رات سےاسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ بندی کا نفاذ عمل میں آیا، تاہم آخری لمحات میں بھی اسرائیلی فوج اور فلسطین کے خطے پر حکمراں حماس کے شدت پسندوں کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا۔
جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد، غزہ کے باشندے سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی کے اظہار کے طور پر بندوقوں سے ہوا میں فائرنگ کی۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار اسکاٹ باب نے غزہ شہر سے خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا یوں ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملے بند ہوگئے ہیں۔
جنگ بندی کا باضابطہ اعلان مصر کے وزیر خارجہ محمد کامل امر نے قاہرہ میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی موجودگی میں کیا، جب کہ مقامی وقت کے مطابق رات کے نو بجنے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے، جو جنگ بندی کا طے شدہ وقت تھا۔
جنگ بندی کے شرائط میں فریقین کے لیے لازم ہے کہ مخاصمت کو ختم کریں اور غزہ میں رہنے والے لوگوں کو استعمال کی اشیاٴ کی فراہمی کی خاطر غزہ کے ساتھ لگنے والی سرحدیں کھول دیں۔
جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے 24گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے۔ مصر فریقین کی طرف سےکی جانی والی خلاف ورزیوں پر نظر رکھے گا۔
یہ سمجھوتا گھنٹوں تک جاری ’شٹل ڈپلومیسی‘ کا ایک حصہ ہے جس میں ہلری کلنٹن کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کے فریقین سے ملاقاتیں کرنا شامل ہے۔
ہلری کلنٹن نے سمجھوتے کو علاقے کے لیے ’فیصلہ کُن اہمیت کا حامل‘ قرار دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اس علاقے کے لوگوں کو موقع ملے گا کہ وہ خوف اور تشدد سے نکل کر سکھ کا سانس لیں، اور یہ کہ آج ہونے والا یہ سمجھوتا ’صحیح سمت ایک قدم ہے جسے پختہ کرنے کی ضرورت ہے‘۔
ہلری کلنٹن نے مصر کی نئی حکومت کو سراہا جس نے اس سعی کے دوران کلیدی کردار ادا کیا اور جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔
قاہرہ میں گفتگو کرتے ہوئے حماس کے راہنما خالد مشعل نے کہا کہ جنگ بندی کے سلسلے میں اسرائیل نے حماس کی شرائط مان لی ہیں۔ اُنھوں نے اسرائیلی فضائی حملوں کو ناکام کوشش قرار دیا۔
یروشلم میںٕ اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے جنگ بندی کے سلسلے میں ہلری کلنٹن اور امریکی صدر براک اوباما کی کوششوٕں کو سراہا اور کہا کہ اسرائیل ایک دیرپہ قابل عمل جنگ بندی پر کاربند رہے گا۔ تاہم، اُنھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسرائیل کو وہ سب کچھ کرنا چاہیئے جس سے اُس کے عوام کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔
اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک نے بھی کہا کہ اسرائیل نے اپنے زیادہ تر مقاصد حاصل کر لیے ہیں، جن میں راکیٹوں، میزائل داغنے کے مراکز اور حماس کے بنکروں کو تباہ کرنا شامل ہے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کا ’آئرن ڈوم دفاعی نظام‘ غرہ کی پٹی سے اسرائیل پر داغے جانے والے 500سے زائد راکیٹوں کو فضا ہی میں ناکارہ بنانے میں کامیاب رہا۔
وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما نے اسرائیل کے وزیر اعظم کو سراہا، جب کہ اُنھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسرائیل اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔
جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد، غزہ کے باشندے سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی کے اظہار کے طور پر بندوقوں سے ہوا میں فائرنگ کی۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار اسکاٹ باب نے غزہ شہر سے خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا یوں ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملے بند ہوگئے ہیں۔
جنگ بندی کا باضابطہ اعلان مصر کے وزیر خارجہ محمد کامل امر نے قاہرہ میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی موجودگی میں کیا، جب کہ مقامی وقت کے مطابق رات کے نو بجنے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے، جو جنگ بندی کا طے شدہ وقت تھا۔
جنگ بندی کے شرائط میں فریقین کے لیے لازم ہے کہ مخاصمت کو ختم کریں اور غزہ میں رہنے والے لوگوں کو استعمال کی اشیاٴ کی فراہمی کی خاطر غزہ کے ساتھ لگنے والی سرحدیں کھول دیں۔
جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے 24گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے۔ مصر فریقین کی طرف سےکی جانی والی خلاف ورزیوں پر نظر رکھے گا۔
یہ سمجھوتا گھنٹوں تک جاری ’شٹل ڈپلومیسی‘ کا ایک حصہ ہے جس میں ہلری کلنٹن کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کے فریقین سے ملاقاتیں کرنا شامل ہے۔
ہلری کلنٹن نے سمجھوتے کو علاقے کے لیے ’فیصلہ کُن اہمیت کا حامل‘ قرار دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اس علاقے کے لوگوں کو موقع ملے گا کہ وہ خوف اور تشدد سے نکل کر سکھ کا سانس لیں، اور یہ کہ آج ہونے والا یہ سمجھوتا ’صحیح سمت ایک قدم ہے جسے پختہ کرنے کی ضرورت ہے‘۔
ہلری کلنٹن نے مصر کی نئی حکومت کو سراہا جس نے اس سعی کے دوران کلیدی کردار ادا کیا اور جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔
قاہرہ میں گفتگو کرتے ہوئے حماس کے راہنما خالد مشعل نے کہا کہ جنگ بندی کے سلسلے میں اسرائیل نے حماس کی شرائط مان لی ہیں۔ اُنھوں نے اسرائیلی فضائی حملوں کو ناکام کوشش قرار دیا۔
یروشلم میںٕ اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے جنگ بندی کے سلسلے میں ہلری کلنٹن اور امریکی صدر براک اوباما کی کوششوٕں کو سراہا اور کہا کہ اسرائیل ایک دیرپہ قابل عمل جنگ بندی پر کاربند رہے گا۔ تاہم، اُنھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسرائیل کو وہ سب کچھ کرنا چاہیئے جس سے اُس کے عوام کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔
اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک نے بھی کہا کہ اسرائیل نے اپنے زیادہ تر مقاصد حاصل کر لیے ہیں، جن میں راکیٹوں، میزائل داغنے کے مراکز اور حماس کے بنکروں کو تباہ کرنا شامل ہے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کا ’آئرن ڈوم دفاعی نظام‘ غرہ کی پٹی سے اسرائیل پر داغے جانے والے 500سے زائد راکیٹوں کو فضا ہی میں ناکارہ بنانے میں کامیاب رہا۔
وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما نے اسرائیل کے وزیر اعظم کو سراہا، جب کہ اُنھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسرائیل اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔