2009ءمیں تین امریکیوں جاش فیٹل، شین باؤر اور سارہ شوڈر کو عراق کے شمالی علاقوں میں ایران کی سرحد کے قریب سیر کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ امریکیوں کے مطابق وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ وہ ایران میں داخل ہورہے ہیں۔ پچھلے سال ایران نے سارہ شوڈر کو 5 لاکھ ڈالر کی ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔ جس کے بعد وہ امریکہ واپس آگئی تھیں۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے خطاب سے ایک دن پہلے جاش فیٹل اور شین باؤر کو رہا کر دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ممکن ہے کہ صدر احمدی نژاد امریکہ میں ایران کا تاثر بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ لیکن واشنگٹن کے تھنک ٹینک سینٹر فار سٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیزکے انتھونی کارڈزمین اس عمل سے دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں ضرورت سے زیادہ دیر تک قید رکھا گیااور ان کی رہائی کے لئے 5 لاکھ ڈالر فی کس ضمانت طلب کرنا ۔ان میں سے کوئی بھی بات امریکہ میں ایران کے لیے ہمدردی پیدا نہیں کر سکتی۔
ایران کے لیے امریکہ کے سابق نائب وزیر جان لمبرٹ بھی جو 1979ءمیں تہران میں امریکی سفارت خانے کے گھیراؤ کے وقت تہران میں موجود تھے اور ایران کی قید میں رہ چکے ہیں ، امریکہ اور ایران کے تعلقات میں کسی گرمجوشی کے پیدا ہونے کے بارے میں زیادہ پر امید نظر نہیں آتے ۔
وہ کہتے ہیں کہ ایران کے سیاسی ماحول اور امریکہ اور ایران کے تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے ایک ایسا چھوٹا سا معاملہ جسے آسانی سے حل ہو جانا چاہیے تھا، بہت بڑا بین الاقوامی مسئلہ بن گیا اور بہت دیر تک قائم رہا۔
لیکن رہائی پانے والے جاش فیٹل اور شین باؤرکے عزیز اور رشتہ دار ان کی رہائی پر بہت خوش ہیں۔ اور پچھلے دو برسوں کے واقعات کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئے آغاز کے لئے تیار ہیں ۔