امریکی کانگریس میں نیا قانون پیش کیا جا رہا ہے جس کا مقصد سوڈان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کہ وہ تعلقات کو معمول کے مطابق لانے کے عوض امن سمجھوتے پر عمل جاری رکھے جب کہ گذشتہ اتوار کو، سوڈان کے صدر، عمر البشیر نے افریقہ کے ملکوں کے ساتھ تعاون کرنےپر چین کی تعریف کی۔
توقع ہے کہ یہ نیا امریکی قانون جسے دونوں پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے، سال ختم ہونے سے پہلے منظور ہو جائے گا۔یہ قانون ایسے وقت میں آ رہا ہے جب جنوبی سوڈان میں امریکہ کی سفارتی موجودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس دوران، چین یہ بات یقینی بنا رہا ہے کہ خرطوم میں حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات انتہائی خوشگوار رہیں جب کہ وہ جنوبی سوڈان میں بھی اپنے روابط مضبوط کر رہا ہے۔
چین، سوڈان کے جنوبی حصے سے، جو چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے بہت بڑی مقدار میں تیل خریدتا ہے۔ یہ تیل شمال کی پائپ لائنوں سے بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح چین کا تعلق ملک کے دونوں حصوں سے قائم ہو جاتا ہے ۔
حالیہ برسوں میں چین نے سوڈان کی حکومت کو بڑی مقدار میں فوجی سازو سامان اور سفارتی سطح پر مدد دی ہے ۔چینی عہدے داروں نے کہا کہ وہ متحدہ سوڈان کے حق میں ہیں، لیکن اگر جنوبی سوڈان کے لوگ آزادی کا انتخاب کرتے ہیں، تو وہ ان کے فیصلے کا احترام کریں گے۔
امریکی اسکالر Eric Reeves نے ایک مہم شروع کی تھی جس میں بیجنگ میں 2008 اولمپک کھیلوں کو ’’نسل کشی کے اولمپکس‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ان کا مقصد سوڈان کے دارفر صوبے میں جاری تصادم سے چین کے تعلق کی طرف توجہ دلانا تھا۔ Reeves کہتے ہیں کہ اگرچہ امریکہ اور چین جنوبی سوڈان میں امن چاہتے ہیں، لیکن خرطوم میں عہدے داروں کے منصوبے کچھ اور ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں’’میرے خیال میں امریکہ اور چین کے لیے مل جل کر کام کرنے کا یہ نہایت عمدہ موقع ہے ۔ سلامتی کونسل میں چین ایک عرصے سے خرطوم کو سفارتی تحفظ فراہم کرتا رہا ہے ۔ اس میں میری نسل کشی کے اولمپکس کی مہم سے کچھ تبدیلی ضرور آئی کیوں کہ چینی نہیں چاہتے تھے کہ ان کے ملک میں ہونے والے اتنے اہم پروگرام کو نسل کشی کے اولمپکس کا نام دیا جائے لیکن خرطوم کو مدد دینے کے نتیجے میں چین کے اقتصادی مفاد کو کبھی کوئی خطرہ نہیں تھا۔اب یہ خطرہ موجود ہے۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر خود اختیاری کا ریفرنڈم ہوا ، تو خرطوم اس کے نتائج کو قبل از وقت ختم کر دے گا یا فوجی مداخلت کے ذریعے منسوخ کر دے گا‘‘۔
افریقہ میں سابق امریکی سفیر ڈیوڈ شِن کہتے ہیں کہ چین نے خرطوم پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ دارفر میں بین الاقوامی امن فوج قبول کر لے ۔ اس کی ایک وجہ اولمپکس کے بارے میں کچھ مسائل تھے۔ریفرنڈم میں بھی چین کا رول بہت اہم ہے۔ Shinn کہتے ہیں کہ چینی عہدے دار جنوبی سوڈان کے باغی گروپ سوڈان پیپلز لبریشن موومنٹ عہدے داروں پر روز بروز زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ انھیں بیجنگ کے دورے کی دعوت دی جا رہی ہے اور باغیوں کے سابق ہیڈ کواٹرز ، Juba میں جو جنوبی سوڈان کا صدر مقام ہے، قونصلیٹ کھولا گیا ہے ۔شِن کہتے ہیںٖ’’وہ اس بات کا پورا اطمینان کر رہے ہیں کہ اگر جنوب آزادی کے لیے ووٹ دیتا ہے، تو ان کی پوزیشن مضبوط ہو۔‘‘
لیکن ایک غیر جانبدار مصنف کیون فَنک کہتے ہیں کہ سوڈان کی صورت حال چین اور امریکہ کے درمیان، بر اعظم افریقہ کے وسائل تک رسائی اور فوجی رابطوں میں رقابت کی مثال ہے ۔ وہ ان رپورٹوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ مشرقی افریقہ میں امریکہ کے اتحادی ملک جنوبی سوڈان کو ہتھیار بھیج رہے ہیں۔’’اس قسم کی اطلاعات ملی ہیں کہ ایتھوپیا اور کینیا دونوں سوڈان پیپلز لبریشن مو ومنٹ کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ یہ ملک امریکہ کے مضبوط اتحادی ہیں، اور امریکی پالیسی کے مقاصد کی روشنی میں دیکھا جائے، تو جنوبی سوڈان میں امریکہ کا رول اتنا عدم دلچسپی کا نہیں ہے جتنا عام طور سے پیش کیا جاتا ہے ۔‘‘
ریفرنڈم اس جامع امن سمجھوتے کا نقطۂ عروج ہو گا جس پر 2005 میں سوڈان پیپلز لبریشن موومنٹ نے اور حکومت سوڈان نے دستخط کیے تھے تا کہ ملک میں دو عشروں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکے ۔اس جنگ میں اندازاً بیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ ریفرنڈم کی راہ میں جو دوسری رکاوٹیں حائل ہیں ان میں انتظامی وسائل کی کمی، ووٹروں کی صحیح فہرستوں کا فقدان، سرحدوں کی نشاندہی اور یہ سوال طے کرنا شامل ہے کہ اگر جنوب آزادی کے لیے ووٹ دیتا ہے تو تیل کی دولت سے حاصل ہونے والا منافع کس طرح تقسیم کیا جائے گا۔