واشنگٹن —
ہفتے کو ’سوسائٹی آف اردو لٹریچر (سول)‘ کی چھٹی سالگرہ کی پُر وقار تقریب کے موقعے پر، انجمن کے بانی، ابو الحسن نغمی نے اعلان کیا کہ آئندہ برس سے واشنگٹن میں ’سالانہ بین الاقوامی اردو کانفرنس‘ کے انعقاد کا آغاز ہوگا۔
اپنے خطبہٴ صدارت میں، اُنھوں نے دوسرا اعلان یہ کیا کہ انجمن کی طرف سے ’انٹرنیٹ ٹیلی ویژن‘ نشریات کا باقاعدہ اجرا ’بہت جلد ہوگا‘۔ ’سول‘ کی سالگرہ کے موقعے پر امریکہ کے مختلف مقامات سے محبان ِاردو تشریف لائے، جنھوں نے کی تالیوں کی گونج میں اِن اعلانات کا خیر مقدم کیا۔
اُنھوں نے مزید بتایا کہ ’سول گزٹ‘ اخبار کو، جس کا پچھلے سال آغاز کیا گیا تھا، باقاعدگی سے شائع کیا جائے گا، جس میں امریکہ بھر میں اردو ادب سے متعلق رپورٹیں اور اعلانات شامل ہوں گے۔
بقول ابوالحسن نغمی، ’ہم جو کہہ رہے ہیں، وہ کرکے بھی دکھائیں گے‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ زبان سے محبت کرنے والوں نے اعلان سے قبل ہی چندہ جمع کرانا شروع کردیا ہے، جِن منصوبوں پر کثیر رقم خرچ آئے گی۔ واشنگٹن کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ میں اردو بولنے، پڑھنے اور سمجھنے والوں کی ایک خاصی تعداد آباد ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے حضرات اس بات کے کوشاں ہیں کہ اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ مادری زبان سکھائیں۔ اُنھوں نے ’ٹائم مگزین‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک سے زائد زبانیں سیکھنے والے بچے، ایک زبان تک محدود رہنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ بقول اُن کے،’ہم یہاں کے نئے کلچر سے خوفزدہ نہیں۔ ہم اِس سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، اور کر رہے ہیں‘۔
معروف ادیب، ڈاکٹر ستیا پال آنند کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں، کتاب کلچر ابھی نہیں آیا‘۔
اُنھوں نے زباں کے فروغ اور انٹرنیٹ کے وسیع تر استعمال پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علامہ راشد الخیری کے رسالے، ’عصمت‘ کو 100 سال مکمل ہو چکے ہیں، جس کے مضامین اردو پڑھنے والوں کے لیے اعلیٰ درجے کا مقام رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے تجویز پیش کی کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو علامہ خیری کے مضامین کو شائع کرے اورانٹرنیٹ پر ڈالے۔
نامور ادیب و دانشور، اور ’وی او اے اردو سروس‘ کے سابق سربراہ، ڈاکٹر معظم صدیقی نے ابوالحسن نغمی کی شخصیت اور شگفتگہ انداز بیاں کا خصوصی ذکر کیا؛ اور لوگوں میں تہذیبی اور ثقافتی ورثہ پہنچانے کے حوالے سے اُن کے کردار کو سراہا۔
پروفیسر جمیل عثمان کے بقول، ’اردو فروغ پاتی رہے گی، اس کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘۔
پروفیسر عزیز قریشی کے الفاظ میں: ’ہوا یوں کہ پھر سج گئی انجمن، تو باذوق احباب آتے گئے؛ اور، اِسی بزم سے فیض پاتے گئے‘۔
مہمان شاعر اور معروف صحافی، سید تابش الوری نے سول کی سالگرہ کے موقعے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ سول اور دیگر ادارے مغرب میں اردو زبان، شعرو ادب اور تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے جو کام کررہے ہیں، وہ جذبے، مشن، نصب العین اور تحریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور ہم سب کو اس سفر میں شانہ بشانہ، قدم بقدم اُن کے ساتھ چلنا ہوگا، تاکہ ہم اپنے ماضی کا اثاثہ اپنی نئی نسل کو امانتاً منتقل کرسکیں۔
منزلیں خود نئی منزل کا پتہ دیتی ہیں، کامرانی کے لیے شرط ہے چلتے رہنا۔
اُن کے چند اشعار:
ہم نئے سورجوں کے شیدائی، موم کے سائبان رکھتے ہیں،
بارشوں کی دعائیں کرتے ہیں، او ر کچے مکان رکھتے ہیں۔
دھوپ سے بچ کے کس طرف جائیں،سائے خنجر چھپائے پھرتے ہیں،
آئینہ بن کے کس طرح نکلیں، لوگ پتھر اُٹھائے پھرتے ہیں۔
تلاشِ منزل میں چل پڑے ہیں،بجا کہ زادِ سفر نہیں ہے؛
مگر ہمیں کامراں رہیں گے، کہ ہم کو لٹنے کا ڈر نہیں ہے۔
چمن نیشنوں تمہاری تنظیم ہی بہاروں کی زندگی ہے،
کہاں تک آخر مہک سکے گا، وہ پھول جو شاخ پر نہیں ہے۔
ہم اپنی زندگی میں کشمکش مٹنے نہیں دیتے،
دیا بھی ساتھ رکھتے ہیں،ہوا بھی ساتھ رکھتے ہیں۔
ہمارے عہد کے اشراف کس مشکل میں آئے ہیں،
انا ہی کم نہیں، جھوٹی انا بھی ساتھ رکھتے ہیں۔
صرف انسان ہی ہجرت نہیں کرتے رہتے،
رزق کا شوق پرندوں کو اُڑا لاتا ہے۔
پروفیسر ظہور ندیم نے اپنے نو تخلیق ادبی کردار ’مرزا ستم ظریف‘ کو متعارف کراتے ہوئے، اُس کا خاکہ پیش کیا۔ اُنھوں نے قارئین کو ظریفانہ انداز سے پیغام دینے کی کامیاب کوشش کی کہ وہ اپنے عصرِ حاضر کے مسائل کو 'ہلکے پھلکے انداز میں' سمجھنے کی کوشش کریں۔
نامور اداکارہ، ریما شہاب نےامریکہ میں اردو زبان کی ترویج کے لیے کیے جانے والے کام کی تعریف کی۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے، جو اُنھوں نے گذشتہ سال سول کے اجلاس میں کیا تھا، اس کو ایفا کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہیں؛ اور اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے جس قدر کوششیں ہوں گی، اُن میں آئندہ بھی بھرپور حصہ لیں گی۔
تقریب کے میزبان، ڈاکٹر ذوالفقار کاظمی نے اپنے افتتاحی کلمات میں سول کی چھ سالہ کارکردگی کا احاطہ کرتے ہوئے، امریکہ میں اردو زبان کے مستقبل کو ’تابناک‘ قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ سرزمینِ امریکہ زبانوں کے فروغ کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
بچوں اور نوجوانوں کے حوالے سے، اُنھوں نے کہا کہ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ وہ اس سےبھرپور استفادہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ تمام شرکا مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اُنھوں نے اپنی خدمات کو رضاکارانہ طور پر سول کے لیے مختص کر رکھا ہے۔
میزبان نے معروف سائنس داں، ڈاکٹر تاثیر حسین کے تعارف میں اُن کی 'مدبرانہ سائنسی خدمات' کو سراہا؛ اور زبان کے فروغ کے لیے اُن کے تحقیقی کام کو اہم قرار دیا۔
ڈاکٹر تاثیر نے اپنے کلمات میں بات کو واضح کیا کہ عمر کے اوائل میں زبانوں کو سیکھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اِس ضمن میں، اُنھوں نے سات سے 13برس کے بچوں کو یہ پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی توجہ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے پر مرکوز کریں، جس کے نتائج توقع سے زیادہ حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
اپنے خطبہٴ صدارت میں، اُنھوں نے دوسرا اعلان یہ کیا کہ انجمن کی طرف سے ’انٹرنیٹ ٹیلی ویژن‘ نشریات کا باقاعدہ اجرا ’بہت جلد ہوگا‘۔ ’سول‘ کی سالگرہ کے موقعے پر امریکہ کے مختلف مقامات سے محبان ِاردو تشریف لائے، جنھوں نے کی تالیوں کی گونج میں اِن اعلانات کا خیر مقدم کیا۔
اُنھوں نے مزید بتایا کہ ’سول گزٹ‘ اخبار کو، جس کا پچھلے سال آغاز کیا گیا تھا، باقاعدگی سے شائع کیا جائے گا، جس میں امریکہ بھر میں اردو ادب سے متعلق رپورٹیں اور اعلانات شامل ہوں گے۔
بقول ابوالحسن نغمی، ’ہم جو کہہ رہے ہیں، وہ کرکے بھی دکھائیں گے‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ زبان سے محبت کرنے والوں نے اعلان سے قبل ہی چندہ جمع کرانا شروع کردیا ہے، جِن منصوبوں پر کثیر رقم خرچ آئے گی۔ واشنگٹن کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ میں اردو بولنے، پڑھنے اور سمجھنے والوں کی ایک خاصی تعداد آباد ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے حضرات اس بات کے کوشاں ہیں کہ اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ مادری زبان سکھائیں۔ اُنھوں نے ’ٹائم مگزین‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک سے زائد زبانیں سیکھنے والے بچے، ایک زبان تک محدود رہنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ بقول اُن کے،’ہم یہاں کے نئے کلچر سے خوفزدہ نہیں۔ ہم اِس سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، اور کر رہے ہیں‘۔
معروف ادیب، ڈاکٹر ستیا پال آنند کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں، کتاب کلچر ابھی نہیں آیا‘۔
اُنھوں نے زباں کے فروغ اور انٹرنیٹ کے وسیع تر استعمال پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علامہ راشد الخیری کے رسالے، ’عصمت‘ کو 100 سال مکمل ہو چکے ہیں، جس کے مضامین اردو پڑھنے والوں کے لیے اعلیٰ درجے کا مقام رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے تجویز پیش کی کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو علامہ خیری کے مضامین کو شائع کرے اورانٹرنیٹ پر ڈالے۔
نامور ادیب و دانشور، اور ’وی او اے اردو سروس‘ کے سابق سربراہ، ڈاکٹر معظم صدیقی نے ابوالحسن نغمی کی شخصیت اور شگفتگہ انداز بیاں کا خصوصی ذکر کیا؛ اور لوگوں میں تہذیبی اور ثقافتی ورثہ پہنچانے کے حوالے سے اُن کے کردار کو سراہا۔
پروفیسر جمیل عثمان کے بقول، ’اردو فروغ پاتی رہے گی، اس کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘۔
پروفیسر عزیز قریشی کے الفاظ میں: ’ہوا یوں کہ پھر سج گئی انجمن، تو باذوق احباب آتے گئے؛ اور، اِسی بزم سے فیض پاتے گئے‘۔
مہمان شاعر اور معروف صحافی، سید تابش الوری نے سول کی سالگرہ کے موقعے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ سول اور دیگر ادارے مغرب میں اردو زبان، شعرو ادب اور تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے جو کام کررہے ہیں، وہ جذبے، مشن، نصب العین اور تحریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور ہم سب کو اس سفر میں شانہ بشانہ، قدم بقدم اُن کے ساتھ چلنا ہوگا، تاکہ ہم اپنے ماضی کا اثاثہ اپنی نئی نسل کو امانتاً منتقل کرسکیں۔
منزلیں خود نئی منزل کا پتہ دیتی ہیں، کامرانی کے لیے شرط ہے چلتے رہنا۔
اُن کے چند اشعار:
ہم نئے سورجوں کے شیدائی، موم کے سائبان رکھتے ہیں،
بارشوں کی دعائیں کرتے ہیں، او ر کچے مکان رکھتے ہیں۔
دھوپ سے بچ کے کس طرف جائیں،سائے خنجر چھپائے پھرتے ہیں،
آئینہ بن کے کس طرح نکلیں، لوگ پتھر اُٹھائے پھرتے ہیں۔
تلاشِ منزل میں چل پڑے ہیں،بجا کہ زادِ سفر نہیں ہے؛
مگر ہمیں کامراں رہیں گے، کہ ہم کو لٹنے کا ڈر نہیں ہے۔
چمن نیشنوں تمہاری تنظیم ہی بہاروں کی زندگی ہے،
کہاں تک آخر مہک سکے گا، وہ پھول جو شاخ پر نہیں ہے۔
ہم اپنی زندگی میں کشمکش مٹنے نہیں دیتے،
دیا بھی ساتھ رکھتے ہیں،ہوا بھی ساتھ رکھتے ہیں۔
ہمارے عہد کے اشراف کس مشکل میں آئے ہیں،
انا ہی کم نہیں، جھوٹی انا بھی ساتھ رکھتے ہیں۔
صرف انسان ہی ہجرت نہیں کرتے رہتے،
رزق کا شوق پرندوں کو اُڑا لاتا ہے۔
پروفیسر ظہور ندیم نے اپنے نو تخلیق ادبی کردار ’مرزا ستم ظریف‘ کو متعارف کراتے ہوئے، اُس کا خاکہ پیش کیا۔ اُنھوں نے قارئین کو ظریفانہ انداز سے پیغام دینے کی کامیاب کوشش کی کہ وہ اپنے عصرِ حاضر کے مسائل کو 'ہلکے پھلکے انداز میں' سمجھنے کی کوشش کریں۔
نامور اداکارہ، ریما شہاب نےامریکہ میں اردو زبان کی ترویج کے لیے کیے جانے والے کام کی تعریف کی۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے، جو اُنھوں نے گذشتہ سال سول کے اجلاس میں کیا تھا، اس کو ایفا کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہیں؛ اور اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے جس قدر کوششیں ہوں گی، اُن میں آئندہ بھی بھرپور حصہ لیں گی۔
تقریب کے میزبان، ڈاکٹر ذوالفقار کاظمی نے اپنے افتتاحی کلمات میں سول کی چھ سالہ کارکردگی کا احاطہ کرتے ہوئے، امریکہ میں اردو زبان کے مستقبل کو ’تابناک‘ قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ سرزمینِ امریکہ زبانوں کے فروغ کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
بچوں اور نوجوانوں کے حوالے سے، اُنھوں نے کہا کہ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ وہ اس سےبھرپور استفادہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ تمام شرکا مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اُنھوں نے اپنی خدمات کو رضاکارانہ طور پر سول کے لیے مختص کر رکھا ہے۔
میزبان نے معروف سائنس داں، ڈاکٹر تاثیر حسین کے تعارف میں اُن کی 'مدبرانہ سائنسی خدمات' کو سراہا؛ اور زبان کے فروغ کے لیے اُن کے تحقیقی کام کو اہم قرار دیا۔
ڈاکٹر تاثیر نے اپنے کلمات میں بات کو واضح کیا کہ عمر کے اوائل میں زبانوں کو سیکھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اِس ضمن میں، اُنھوں نے سات سے 13برس کے بچوں کو یہ پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی توجہ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے پر مرکوز کریں، جس کے نتائج توقع سے زیادہ حاصل کیے جا سکتے ہیں۔