پاکستان میں گذشتہ دنوں اردو زبان کی ترویج و ترقی اور اردو ادب کے فروغ کے سلسلے میں چند ادبی میلوں کا بڑا شہرہ رہا ۔۔۔ ہم ان میلوں میں تو شامل نہ ہو سکے کہ اس کے لیے پاکستان جانا پڑتا۔ لیکن پچھلے دنوں ہم نے ایک ایسی منفرد محفل میں شرکت کی جہاں پاکستان سے دور ہونے کے باوجود اردو زبان اور اردو ادب کا رنگ بہت نمایاں تھا۔
ہم بات کر رہے ہیں واشنگٹن میں اردو کی ادبی تنظیم ’سول‘ (سوسائٹی آف اردو لٹریچر) کی جانب سے منعقد کی جانے والی ایک ایسی تقریب کی جو دو حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلا حصہ اردو کی اس ادبی تنظیم کی پانچویں سالگرہ اور امریکہ میں ’سول‘ کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالنے پر مشتمل تھا۔ جبکہ دوسرے حصے میں سول کے بانی اور مصنف ابوالحسن نغمی کی کتاب ’سعادت حسن منٹو (ذاتی یاد داشتوں پر مبنی اوراق)‘ کی تقریب ِ رونمائی تھی۔
تقریب کی نظامت کے فرائض جناب ذوالفقار کاظمی نے ادا کیے۔ وہ تقریب کے دونوں حصوں کو عمدہ طریقے سے لے کر چلے اور تقریب کی طوالت کے باجود حاضرین کی دلچسپی کو برقرار رکھنے میں کامیاب بھی رہے۔
ابوالحسن نغمی نے ’سول‘ کے ماضی، حال اور مستقبل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ جب پانچ سال قبل انہوں نے ’سول‘ کی بنیاد ڈالی تھی تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ تنظیم آہستہ آہستہ اپنی جڑیں مضبوط کرتی چلی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ ان کا بویا ہوا بیچ ایک پودے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور آہستہ آہستہ گھنا درخت بن جائے گا۔
تقریب کے پہلے حصے میں واشنگٹن کے ادبی حلقوں کے صاحب ِ طرز شاعر عبدالرحمان صدیقی نے بھی نظم پڑھی جسے حاضرین ِ محفل نے بہت سراہا۔ ان کے علاوہ یوسف راحت، مونا شہاب اور فیاض الدین صائب نے بھی نظمیں سنائیں۔ یاسمین نغمی نے گفتگو میں ’سول‘ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی جبکہ عبید الرحمنٰ اور خلیل الرحمنٰ نے اپنی تقریروں میں تنظیم کے قیام اور کام کی تعریف کی۔ پہلے حصے کے اختتام پر سول کی سالگرہ کی مناسبت سے کیک بھی کاٹا گیا۔
تقریب کے دوسرے حصے کے آغاز کا ایک خوشگوار پہلو فلمسٹار ریما کی آمد اور تقریب سے ان کا خطاب تھا۔ ریما نے ہمیشہ کی طرح اپنے نرم لہجے میں گفتگو کی اور سبھی کے دل موہ لیے۔ انہوں نے دیار ِ غیر میں اردو کے فروغ کی کاوشوں کو سراہا۔
اداکار نور نغمی نے منٹو پر کتاب کی رونمائی کے حوالے سے سعادت حسن منٹو کا ایک افسانہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ عمدہ انداز میں پڑھ کر سبھی سے داد وصول کی۔ تقریب کے ناظم ذوالفقار کاظمی نے اس موقعے پر کتاب کے پبلشر ’سنگ ِ میل‘ کی جانب سے خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا جس میں ناشر نے صاحب ِ کتاب کی کاوش کو سراہا اور مبارک پیش کی۔
وائس آف امریکہ سے تعلق رکھنے والے خالد حمید نے بھی اس موقعے پر تقریر کی اور ابوالحسن نغمی کی کاوشوں کی تعریف کی۔
شاعر ستیہ پال آنند نے ابوالحسن نغمی کے ساتھ اپنی پرانی یادیں تازہ کیں اور اس کتاب کو بھارت سے ہندی میں چھپوانے کا عندیہ بھی دیا۔
اردو کے لکھاری اور نقاد ڈاکٹر معظم صدیقی نے بھی کتاب ’سعادت حسن منٹو(ذاتی یادداشتوں پر مبنی اوراق)‘ کی تعریف کی۔ ان کی تقریر میں مزاح کا عنصر نمایاں رہا جس نے حاضرین ِ محفل کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔
پروگرام کے آخر میں سولہ سالہ نوجوان محمد عارج نے صدر ِ محفل تقی عابدی سے سوال کیا کہ امریکہ میں بڑے ہونے والے بچے اردو کس طرح سیکھیں؟
جس پر صدر ِ محفل اور اردو ادب کے نقاد ڈاکٹر سید تقی عابدی نے شمالی امریکہ اور کینیڈا میں اردو کے فروغ کے لیے جدید بنیادوں پر اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’اردو کے رسم الخط کی حفاظت ضروری ہے۔ اور اس کے لیے ہم ایک سوفٹ وئیر پر کام کر رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر تقی عابدی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ آیا اردو ادب صرف کانوں کی زبان بن کر رہ سکتی ہے؟ اگر نہیں، تو اس کی ترقی و ترویج کے لیے ہر صاحب ِ زبان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ہم بات کر رہے ہیں واشنگٹن میں اردو کی ادبی تنظیم ’سول‘ (سوسائٹی آف اردو لٹریچر) کی جانب سے منعقد کی جانے والی ایک ایسی تقریب کی جو دو حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلا حصہ اردو کی اس ادبی تنظیم کی پانچویں سالگرہ اور امریکہ میں ’سول‘ کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالنے پر مشتمل تھا۔ جبکہ دوسرے حصے میں سول کے بانی اور مصنف ابوالحسن نغمی کی کتاب ’سعادت حسن منٹو (ذاتی یاد داشتوں پر مبنی اوراق)‘ کی تقریب ِ رونمائی تھی۔
تقریب کی نظامت کے فرائض جناب ذوالفقار کاظمی نے ادا کیے۔ وہ تقریب کے دونوں حصوں کو عمدہ طریقے سے لے کر چلے اور تقریب کی طوالت کے باجود حاضرین کی دلچسپی کو برقرار رکھنے میں کامیاب بھی رہے۔
ابوالحسن نغمی نے ’سول‘ کے ماضی، حال اور مستقبل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ جب پانچ سال قبل انہوں نے ’سول‘ کی بنیاد ڈالی تھی تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ تنظیم آہستہ آہستہ اپنی جڑیں مضبوط کرتی چلی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ ان کا بویا ہوا بیچ ایک پودے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور آہستہ آہستہ گھنا درخت بن جائے گا۔
تقریب کے پہلے حصے میں واشنگٹن کے ادبی حلقوں کے صاحب ِ طرز شاعر عبدالرحمان صدیقی نے بھی نظم پڑھی جسے حاضرین ِ محفل نے بہت سراہا۔ ان کے علاوہ یوسف راحت، مونا شہاب اور فیاض الدین صائب نے بھی نظمیں سنائیں۔ یاسمین نغمی نے گفتگو میں ’سول‘ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی جبکہ عبید الرحمنٰ اور خلیل الرحمنٰ نے اپنی تقریروں میں تنظیم کے قیام اور کام کی تعریف کی۔ پہلے حصے کے اختتام پر سول کی سالگرہ کی مناسبت سے کیک بھی کاٹا گیا۔
تقریب کے دوسرے حصے کے آغاز کا ایک خوشگوار پہلو فلمسٹار ریما کی آمد اور تقریب سے ان کا خطاب تھا۔ ریما نے ہمیشہ کی طرح اپنے نرم لہجے میں گفتگو کی اور سبھی کے دل موہ لیے۔ انہوں نے دیار ِ غیر میں اردو کے فروغ کی کاوشوں کو سراہا۔
اداکار نور نغمی نے منٹو پر کتاب کی رونمائی کے حوالے سے سعادت حسن منٹو کا ایک افسانہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ عمدہ انداز میں پڑھ کر سبھی سے داد وصول کی۔ تقریب کے ناظم ذوالفقار کاظمی نے اس موقعے پر کتاب کے پبلشر ’سنگ ِ میل‘ کی جانب سے خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا جس میں ناشر نے صاحب ِ کتاب کی کاوش کو سراہا اور مبارک پیش کی۔
وائس آف امریکہ سے تعلق رکھنے والے خالد حمید نے بھی اس موقعے پر تقریر کی اور ابوالحسن نغمی کی کاوشوں کی تعریف کی۔
شاعر ستیہ پال آنند نے ابوالحسن نغمی کے ساتھ اپنی پرانی یادیں تازہ کیں اور اس کتاب کو بھارت سے ہندی میں چھپوانے کا عندیہ بھی دیا۔
اردو کے لکھاری اور نقاد ڈاکٹر معظم صدیقی نے بھی کتاب ’سعادت حسن منٹو(ذاتی یادداشتوں پر مبنی اوراق)‘ کی تعریف کی۔ ان کی تقریر میں مزاح کا عنصر نمایاں رہا جس نے حاضرین ِ محفل کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔
پروگرام کے آخر میں سولہ سالہ نوجوان محمد عارج نے صدر ِ محفل تقی عابدی سے سوال کیا کہ امریکہ میں بڑے ہونے والے بچے اردو کس طرح سیکھیں؟
جس پر صدر ِ محفل اور اردو ادب کے نقاد ڈاکٹر سید تقی عابدی نے شمالی امریکہ اور کینیڈا میں اردو کے فروغ کے لیے جدید بنیادوں پر اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’اردو کے رسم الخط کی حفاظت ضروری ہے۔ اور اس کے لیے ہم ایک سوفٹ وئیر پر کام کر رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر تقی عابدی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ آیا اردو ادب صرف کانوں کی زبان بن کر رہ سکتی ہے؟ اگر نہیں، تو اس کی ترقی و ترویج کے لیے ہر صاحب ِ زبان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔