رسائی کے لنکس

پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کا انضمام، کیا واقعی یہ ممکن ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں ماضی میں مضبوط گرفت کے ساتھ حکمرانی کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) میں 2016 اور پھر 2018 میں جو تقسیم دیکھی گئی، حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ اس تقسیم کو پھر سے ختم کرنے کا عمل تیزی سے شروع ہوچکا ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں ایم کیو ایم کے نامزد کردہ کامران ٹیسوری کی بطور گورنر سندھ تعیناتی پر ان کا واضح مؤقف تھا کہ وہ پارٹی سے ماضی میں الگ ہونے والے مختلف گروہوں کو دوبارہ جماعت میں لانے کے لیے کوشش تیز کریں گے۔

تین ماہ کی ملاقاتوں کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ کوشش اب کسی کروٹ جلد بیٹھتی نظر آ رہی ہے جس کے تحت کہا جا رہا ہے کہ مارچ 2016 میں وجود میں آنے والی پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) اور پھر 2018 میں ایم کیو ایم سے نکالے گئے ڈاکٹر فاروق ستار کی پارٹی میں دوبارہ شمولیت کی راہیں ہموار ہوگئی ہیں اور اس کا باقاعدہ اعلان جلد ہونے کی توقع ہے۔

ایم کیو ایم میں پی ایس پی اور ڈاکٹر فاروق ستار کے گروپ کے انضمام کا یہ سفر اس قدر سادہ اور آسان بھی نہیں۔ کئی مبصرین کے مطابق ابھی اس میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں، جس میں سب سے اہم یہ طے ہونا باقی ہے کہ پاک سرزمین پارٹی کے موجودہ عہدیداروں اور خود ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیو ایم میں شمولیت کے بعد کیا عہدہ دیا جائے گا۔

ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے قریبی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بات چیت اب انہی اہم عہدوں اور فیصلہ سازی کی کنجی حاصل کرنے کے گرد جاری ہے۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے قریبی ساتھی اور ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے سابق کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی سے علیحدگی کے بعد تنظیم بحالی کمیٹی (او آر سی) کے نام سے علیحدہ پلیٹ فارم بنا لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی نئی سیاسی جماعت تشکیل نہیں دی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق اب بھی ایم کیو ایم سے ہے جسے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے انضمام کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ ڈھائی برس سے یہی کہتے آئے ہیں کہ انتہا پسند ملک دشمن قوتیں اردو بولنے والوں میں موجود مایوسی کا فائدہ اٹھا کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ اس لیے ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کا اتحاد ضروری ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار کے خیال میں ایم کیو ایم کی تقسیم سے کراچی کی سیاست میں خلا پیدا ہوا، جس کی ذمہ داری ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کے بڑوں پر عائد ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کو آج بھی اسی طرح اپناتے ہیں جیسے کے پہلے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ تمام فریقین ایم کیو ایم کو دوبارہ سے زندہ کرنے اور شہری سندھ میں بسنے والوں کے احساس محرومی کودور کرنے کے لیے عملی کوششوں پر متفق ہوچکے ہیں۔

ان کے مطابق کچھ چیزیں بعد میں بھی طے ہو جائیں گی لیکن ہمارے نزدیک کاموں کی تقسیم، فیصلہ سازی اور پالیسی سے زیادہ بڑی یہ بات ہے کہ پارٹی کی قیادت نوجوانوں کے حوالے کی جائے۔

دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے سربراہ سید مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ اب تک ہماری ایم کیو ایم کی قیادت سے انضمام سے متعلق کوئی اعلانیہ یا خفیہ بات چیت ہوئی ہی نہیں ہے۔ اب تک جو بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں وہ گورنر سندھ ہی سے ہوئی ہیں اور اگر اس سےمتعلق کوئی بھی بات حتمی شکل اختیار کرتی ہے تو اسے سامنے لایا جائے گا۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی بھی مختلف گروپوں کی دوبارہ شمولیت کے بارے میں کچھ زیادہ بتانے سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس سوال کا مختصر جواب دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ان کی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہے تو وہ اس بات کے لیے تیار ہیں۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ انضمام سے متعلق کسی بھی جماعت نے رابطہ کیا تب ہی اس بارے میں کچھ بتایا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے نومبر 2021 میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں بھی یہی مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے پرچم اور نشان تلے تمام دھڑوں کو متحد کر پائیں۔

تاہم ان کوششوں میں مہاجر قومی موومنٹ، جس کی قیادت آفاق احمد کررہے ہیں، شامل کرنے کی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی ہے۔

خیال رہے کہ آفاق احمد بھی خود کو اردو بولنے والوں کا نمائندہ کہلواتے ہیں اور وہ 1992 میں ایم کیو ایم سے راہیں جدا کرچکے تھے۔

بعض مبصرین اور معاملات کو انتہائی قریب سے دیکھنے والے صحافیوں کی رائے میں انضمام جلدہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا جب کہ اس حوالے سے زیادہ تر تنازعات مختلف دھڑوں کے رہنماؤں کے انفرادی مفادات اور انا کے ہیں۔

سینئر صحافی ارمان صابر کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کی عام انتخابات اور پھر ضمنی الیکشن میں کارکردگی 2016 میں الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد سے بتدریج خراب ہوتی چلی آئی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ خود ایم کیو ایم کی قیادت میں آپس ہی میں چپقلش شروع ہوگئی اور کئی رہنما پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ان کے مطابق کئی بار اس حوالے سے ہاتھا پائی کی بھی خبریں سامنے آئیں، جس کی پارٹی کے ترجمان کو تردید کرنا پڑی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب اسے یکجا کرنے کی کوششیں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے شروع کی ہیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لائے ہوئے گورنر ہیں۔

ارمان صابر کے خیال میں ایک اور وجہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی جانب سے انتخابی سیاست کے بائیکاٹ کی اپیل بھی ہے، جس پر لوگوں کی بڑی تعداد ایم کیو ایم پاکستان کی کارکردگی سے نالاں ہوکر کان دھرنے پر مجبور ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک رہنے والے بہت سے شہری غصے میں بھی ہیں، جس کی بنا پر وہ تحریکِ انصاف اور دیگر جماعتوں کو ووٹ دے رہے ہیں اور بعض کسی کو بھی ووٹ نہ دینے میں بہتری سمجھ رہے ہیں۔

ان کے بقول ضمنی انتخابات میں انتہائی کم ووٹنگ کی شرح اس بات کا ثبوت ہے کہ لاکھوں ووٹ لینے والی ایم کیو ایم اب لوگوں کو پولنگ اسٹیشنز تک لانے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ ایسے میں تمام دھڑوں کا انضمام خود ایم کیو ایم کی بقا کے لیے ضروری ہے تاکہ اس ووٹ بینک کو بچانے کے لیے اجتماعی کاوش کی جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ خود فاروق ستار جب اگست میں آزاد حیثیت سے اپنے علاقے کی نشست سے انتخاب لڑے تو انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار کے مقابلے میں محض تین ہزار 479 ووٹ مل پائے، دوسری جانب پی ایس پی بھی گزشتہ عام انتخابات سمیت ضمنی انتخابات میں کوئی بھی کامیابی سمیٹنے میں اب تک ناکام ہی رہی ہے۔

ارمان صابر کے بقول انہی وجوہات کی بنا پر ایم کیو ایم فی الوقت کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کا بھی التوا چاہتی ہے کیوں کہ پارٹی قیادت فکر مند ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کا ووٹ بینک مزید متاثر نہ ہو جائے اور یوں رہی سہی کسربھی پوری ہو جائے۔

واضح رہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت کا مؤقف ہے کہ نئے بلدیاتی انتخابات حلقہ بندیوں میں تبدیلیوں سے قبل نہ کیے جائیں۔

ارمان صابر نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم کے انضمام میں سب سے بڑی رکاوٹ تینوں دھڑوں کی قیادت کی انا ہے جسےختم کرنے کے لیے کوئی تیار نظر نہیں آ رہا۔ ایم کیو ایم کی روایت رہی ہے کہ اس کی قیادت عوام میں موجود رہتی تھی اور رہنما ان کے مسائل کے حل کے لیے فوری دستیاب ہوتے تھے۔ یہ کلچر بھی اب ختم ہوچکا ہے اور دوسری جانب لوگوں کے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

سینئر صحافی طاہر حسن کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے مختلف گروپوں میں تقسیم کا عمل لیڈر شپ کی ناکامی کی وجہ شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد انتخابات کے نتائج نے ایم کیو ایم کو اور بھی مشکل صورتِ حال میں ڈال دیا۔ اب پارٹی کو یکجا کرنے کی کوشش تو ہو رہی ہے لیکن یہ سرکاری سطح پر کی جانے والی کوششیں ہیں۔

ان کے بقول ایم کیو ایم کے رہنما خود اس انضمام کے بارے میں کوئی کوشش کرتے نظر آتے تو شاید نتائج مختلف ہوتے لیکن یہ سرکاری سطح پر کی جانے والی مشق ہے، تو اس کے نتائج بھی ایسے ہی ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ عام انتخابات میں کراچی سے تحریک انصاف نے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں لیکن اب ایک بار پھر کوشش کی جا رہی ہے کہ ایم کیو ایم کے ہاتھ مضبوط کیےجائیں تاکہ یہ نشستیں ایم کیو ایم دوبارہ سے حاصل کرسکے۔

طاہر حسن کے خیال میں اگر اس کوشش میں خلوص اور نیک نیتی شامل نہیں، تو اس طرح کی کوششیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اس لیے جس طرح ماضی میں ایم کیو ایم ایک بڑی اور منظم سیاسی جماعت تھی شاید ایسا اب ممکن نہ ہو پائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں میں انضمام ہو جاتا ہے تو اس کا مثبت پہلو یہ بھی ضرور ہوگا کہ کراچی میں مذہبی گروہ بندی کو شاید لگام دی جا سکے لیکن اگر یہ انضمام نہیں ہو پاتا تو پھر ایم کیو ایم اور اس کے دیگر دھڑے چھوٹے چھوٹے پریشر گروپس کے طور پر ہی کام کرسکیں گے اور ان کی بڑی سیاسی قوت میں تبدیلی خواب ہی رہے گی۔

XS
SM
MD
LG