رسائی کے لنکس

کامران ٹیسوری: سونے کے کاروبار سے گورنر سندھ تک کا سفر کیسے ممکن ہوا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یہ فروری 2018 کی بات ہے جب پاکستان کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اس وقت براجمان سیاسی جماعتیں عام انتخابات سے قبل سینیٹ انتخابات کی تیاریاں کررہی تھیں۔ دیگر جماعتوں کی طرح متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم)کی جانب سے بھی سینیٹ کے الیکشن میں امیدواروں کو حتمی شکل دیے جانے کے لیے طویل اجلاس اور مشاورت کا سلسلہ جاری تھا۔ اس دوران 22 اگست 2016 کے بعد پارٹی کے نئے سربراہ کی حیثیت سے سامنے آنے والے ڈاکٹر فاروق ستار نے سینیٹ کے انتخابات میں پارٹی امیدوار کے طور پر ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر کامران ٹیسوری کا نام پیش کیا۔ جس پر کمیٹی کے دیگر اراکین کی جانب سے کھل کر اعتراضات سامنے آئے اور انہیں ٹکٹ نہ دیے جانے کا مشورہ دیا گیا۔

لیکن ڈاکٹر فاروق ستار اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے اور کامران ٹیسوری کو ہر صورت سینیٹر بنانے پر زور دیتے رہے۔ نتیجہ ایم کیو ایم کی سینیٹ انتخابات میں بدترین شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ ایم کیو ایم صرف ڈاکٹر فروغ نسیم کو سینیٹر منتخب کراسکی اور باقی چاروں امیدوار ہار گئے۔

ایم کیو ایم کے کئی اراکین اسمبلی نے ببانگ دھل اپنا ووٹ پیپلز پارٹی کے سینیٹ امیدواروں کو دینے کا اعتراف کیا۔ اس صورتِ حال میں جماعت تقسیم ہوئی اور بالآخر ڈاکٹر فاروق ستار کو پارٹی سربراہ کے عہدے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔

فاروق ستار کے مخالفین اس وقت بھی یہ سوال شدت سے اٹھا رہے تھے کہ آخر پارٹی کے کئی دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کرکے فاروق ستار کس بناء پر ایسے شخص کو پارٹی کا سینیٹر بنانا چاہتے ہیں جسے جماعت میں شامل ہوئے بمشکل چند سال کا عرصہ گزرا تھا۔ اس کے باوجود فیصلے پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے ڈاکٹر فاروق ستار نہ صرف اپنی جماعت سے الگ ہوئے اور ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے نام پر اپنا الگ دھڑا بنالیا بلکہ کامران ٹیسوری بھی عملی سیاست سے آنے والے سالوں میں کنارہ کش رہے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور کامران ٹیسوری کی دوستیاں پھر بھی کم نہ ہوئیں۔

آج سے صرف ایک ماہ قبل یعنی 9 ستمبر 2022 کو اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ کامران ٹیسوری کو متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کی 'دعوت' پر ایک بار پھر بطور ڈپٹی کنوینر شامل کرلیا گیا ہے جو پارٹی کے سربراہ یعنی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے بعد دوسرا بڑا عہدہ ہے۔

کامران ٹیسوری کی گورنر تعیناتی پر ڈاکٹر فاروق ستار نے انہیں مبارک باد دی ہے۔ (فائل فوٹو)
کامران ٹیسوری کی گورنر تعیناتی پر ڈاکٹر فاروق ستار نے انہیں مبارک باد دی ہے۔ (فائل فوٹو)

اور پھر محض ایک ماہ کے بعد کامران ٹیسوری کو صدرِ مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 101 کے تحت صوبہ سندھ کا گورنر مقرر کر دیا۔ یہ عہدہ صوبے کے 33 ویں گورنر عمران اسماعیل کے استعفےکے بعد سے خالی تھا اور اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی 18 اپریل سے قائم مقام گورنر کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔

کامران ٹیسوری یہاں تک کیسے پہنچے؟

کامران ٹیسوری اور ان کا خاندان کراچی کی ایک بڑی کاروباری فیملی کے طور جانے جاتے ہیں۔ وہ 'ٹیسوری گولڈ' کے نام سے سونے کے بڑے کاروبار کے مالک ہیں اور ان کا یہ کاروبار پاکستان، مشرق وسطی' کے کئی ممالک اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔

اڑتالیس سالہ کامران ٹیسوری 'آل پاکستان جیم مرچنٹ ایسوسی ایشن' کے چئیرمین بھی رہ چکے ہیں جب کہ ان کے والد اختر خان ٹیسوری ایسوسی ایشن کے بانی ہیں۔

کامران ٹیسوری کچھ عرصے ایکسچینج کمپنی بھی چلاتے رہے۔ تاہم بعد میں وہ مکمل طور پر ٹیسوری گولڈ کے کاروبار سے منسلک ہوگئے اور رفتہ رفتہ ان کی سیاست میں دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ انہیں سب سے پہلے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلی' سندھ ارباب غلام رحیم کے ساتھ دیکھا گیا تھا جن کے ساتھ ان کے اتنے قریبی مراسم تھے کہ بعض وزراء کو بھی وزیر اعلی' سے رابطے کے لیے پہلے کامران ٹیسوری سے رابطہ کرنا پڑتا تھا۔

اس کے بعد کامران ٹیسوری نے مسلم لیگ فنکشنل میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد وہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے زیرِ عتاب رہے، اُن پر بدین اور ٹھٹھہ میں زمینوں پر قبضے، کراچی میں پولیس مقابلے سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمات بھی قائم کیے گئے۔

بعدازاں کامران ٹیسوری کا سیاسی سفر متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ شروع ہوا اور ابتدا سے ہی اختلافات اور ناراضگیاں نظر آتی رہیں۔ سال 2018 کے عام انتخابات میں انہوں نے پہلے پارٹی سے ناراضی پر آزادانہ انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا لیکن پھر وہ انتخابات سے دستبردار ہوگئے۔ اور اب وہ پیر کو ملک کے آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے صوبے کے گورنر کا حلف اٹھائیں گے۔

کامران ٹیسوری کی بطور گورنر تعیناتی پر بہت سے تجزیہ کار اور صحافی حیرانی کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کامران ٹیسوری کی شہرت متنازع رہی ہے اور ان کی تقرری سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں نامعلوم کالز اور کال کرنے والوں کا اثر و رسوخ پہلے کی طرح ہی موجود ہے اور یہ بات بھی شدت سے دہرائی جائے گی کہ پاکستان میں سیاسی انجینئرنگ آج بھی کی جاتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مظہر عباس نے دعویٰ کیا کہ کامران ٹیسوری کو رابطہ کمیٹی میں واپس لینے کا فیصلہ بھی نامعلوم کالز پر کیا گیا اور جب ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اراکین نے سوالات اٹھائے تو کامران ٹیسوری کو گورنر بنانے پر اکتفا کر لیا گیا۔ ان کے بقول ایسے فیصلےسیاست کو مزید متنازع اور نقصان دینے کا باعث بنیں گے۔

مظہر عباس کے مطابق نامعلوم فون کالز پر لیے جانے والے فیصلوں سے متحدہ قومی موومنٹ کی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ فیصلہ ایسے موقع کیا گیا ہے جب کراچی میں بلدیاتی انتخاب قریب ہیں اور پارٹی پہلے ہی کافی کمزور پوزیشن میں موجود ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کامران ٹیسوری نے اپنے مختصر سیاسی سفر کا بھی کم وقت ایم کیو ایم میں گزارا ہے اور اس دوران وہ قیادت کے درمیان اختلافات کی ایک بڑی وجہ بھی بنتے آئے ہیں۔ تاہم اختلافات کی وجہ بننے کے باوجود اسی پارٹی کی جانب سے گورنرشپ کی نامزدگی کے سفر سے ان کی طاقت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار سے گفتگو
please wait

No media source currently available

0:00 0:10:52 0:00

صحافی محمد عمران احمد کہتے ہیں تقریباً چھ سال بعد متحدہ قومی موومنٹ کو ایک بار پھر صوبے کی گورنرشپ مل گئی ہے لیکن پارٹی سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور اہم رہنما عامر خان بالکل خاموش اور لاتعلق دکھائی دے رہے ہیں جب کہ اب تک پارٹی کے دوسرے درجے کے رہنماؤں نے ہی کامران ٹیسوری کو مبارک باد دی ہے۔

کامران ٹیسوری کی تعیناتی پر ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گورنرشپ کے لیے وفاق کو پہلے بھیجے گئے پانچ ناموں پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو مزید دو نام بھیجے جن میں سابق رکن قومی اسمبلی عبدالوسیم اور کامران ٹیسوری کے نام شامل تھے۔

اس سے قبل پہلے مرحلے میں ایم کیو ایم کی جانب سے بھیجے گئے ناموں میں ایک نام سابق نائب ناظمہ اور سابق سینیٹر نسرین جلیل کا بھی تھا۔ تاہم صدر مملکت نے دوسرے مرحلے میں بھیجے گئے ناموں میں سے کامران ٹیسوری کا نام منظور کرلیا۔

ایم کیو ایم کے سابق ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کو گورنر تعینات ہونے پر مبارک باد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

ماضی میں ایم کیو ایم کا حصہ رہنے والے سابق ناظم کراچی اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی' کمال نے بھی کامران ٹیسوری کو مبارک باد دی ہے۔

تجزیہ کار مظہر عباس نے سوال اٹھایا کہ جس شخص پر جماعت کی رابطہ کمیٹی میں عہدہ دینے پر سوالات اٹھے ہوں، وہی شخص اسی جماعت کی جانب سے گورنر کیسے نامزد ہو سکتا ہے؟

ان کے بقول "مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم نے کامران ٹیسوری کو گورنر بنانے کا فیصلہ نہیں کیا، لیکن اس کے باوجود ایم کیو ایم کو یہ فیصلہ اپنانا ہوگا۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے عمران خان کے دورِ حکومت میں ڈاکٹر فروغ نسیم کو بطور وفاقی وزیرِ قانون تھے لیکن متحدہ قومی موومنٹ ان کو اپنے وزیر کے طور پر تسلیم نہیں کرتی تھی۔"

مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ عین ممکن ہے کہ کامران ٹیسوری کو اس لیے لایا گیا ہے تاکہ متحدہ قومی موومنٹ کے مختلف دھڑوں کو ایک بار پھر متحد کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی جائے لیکن اس کے لیے پسِ پردہ ان لوگوں کی کوشش زیادہ نظر آتی ہیں، جو کامران ٹیسوری کو گورنر بنا رہی ہیں اور خود کامران ٹیسوری کا ذاتی اثر و رسوخ ماسوائے ڈاکٹر فاروق ستار کے ماتحت ایم کیو ایم کے، کسی دھڑے پر کوئی خاص نہیں۔ اس لیے یہ فیصلہ خود ایم کیو ایم والوں کے لیے عجیب ہے۔

XS
SM
MD
LG