رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں ہندوؤں کی ہلاکت کے بعد مظاہرے، پاکستان کے خلاف نعرے بازی


راجوری میں پیش آنے والے واقعات کے خلاف بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے احتجاج کیا۔
راجوری میں پیش آنے والے واقعات کے خلاف بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے احتجاج کیا۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری میں مشتبہ عسکریت پسندوں کی فائرنگ اور جائے واردات پر ہونے والے ایک دھماکے میں دو کمسن بچوں سمیت چھ ہندو شہریوں کی ہلاکت کے بعد علاقے میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

اتوار کی رات اور پیر کی صبح راجوری کے ڈانگری نامی گاؤں میں پیش آنے والے ان پُرتشدد واقعات میں ایک درجن افرادزخمی ہوئے تھے جن میں سے تین کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

راجوری اور کئی ملحقہ علاقوں میں کشیدگی پائی جاتی ہے جب کہ سناتن دھرم سبھا، ویشو ہندو پریشد اوردائیں بازو کی چند دوسری تنظیموں کی اپیل پر ہڑتال کی جارہی ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے انتظامی سربراہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے ان واقعات کو بزدلانہ دہشت گردحملہ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو فی کس 10، 10 لاکھ روپے اور شدید زخمیوں کوایک ایک لاکھ روپے کی عبوری امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔

گورنر منہوج سنہا کا کہنا ہے کہ"میں لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس گھناؤنے واقعے میں ملوث افراد سزا سے نہیں بچ پائیں گے"۔

نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بقول پاکستان کی پشت پناہی میں سرگرم دہشت گرد ان حملوں کے ذمے دار ہیں جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعات حکومت کے اس دعوے کی قلعی کھول دیتے ہیں کہ اگست 2019 میں بھارت کے زیرِِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کرنے کے بعد علاقے میں امن لوٹ آیا ہے۔

پاکستان بھارت کے زیرِ انتطام کشمیر میں سرحدی دراندازی اور دہشت گردی کی معاونت کے الزامات کی تردید کرتارہا ہے۔

امن قائم ہونے کے دعوؤں پر سوال

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں واقعے کی مذمت اور متاثرہ خاندانوں سے اظہارِ تعزیت کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی حکمرانی اور اس کے عسکریت ختم کرنے کے جعلی دعوؤں کے باوجود کسی کمی کے بغیر تشدد جاری ہے۔ اگرجموں و کشمیر کی اپنی منتخب حکومت ہوتی تو اسی (بھارتی) میڈیا نے اسے انگاروں پر لِٹایا ہوتا۔

ایک اور سابق وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن کی جماعت نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے۔

تاہم انہوں نےحملے اور دھماکے کے واقعات کو سیکیورٹی فورسز کی غفلت قرار دیا۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ماضی کے واقعات سے یہ سبق حاصل کیا گیا تھا کہ انکاؤنٹر یا حملوں کے مقامات کو مکمل طور پر صاف کرنے سے پہلے انہیں عام لوگوں کے لیے نہیں کھولا جائے گا۔ راجوری میں اس طریقۂ کار کو کیوں نہیں اپنایا گیا؟

حملہ آوروں کے خلاف آپریشن جاری

ایک اعلیٰ پولیس عہدے دار مکیش سنگھ نے بتایا کہ ڈانگری اور قریبی دیہات میں حملہ آوروں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لیےبڑے پیمانے پر سیکیورٹی فورسز کا آپریشن چل رہا ہے۔

ڈانگری میں پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ایس یو وی گاڑی میں سوار دو مسلح افراد نے گاؤں میں تقریباً 50 میٹر کے فاصلے پر واقع تین گھروں پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے وہاں موجود شہری موقعے پر ہی پر ہلاک ہوگئے جب کہ دو خواتین سمیت آٹھ افراد زخمی ہوئے۔

راجوری کےمیڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمود نے بتایا کہ تین افراد کو ضلع صدر مقام پر واقع گورنمنٹ میڈیکل کالج اسپتال مردہ لایا گیا تھا۔

ان کے مطابق مرنے اورزخمی ہونے والے سب ہی افراد کو ایک سے زیادہ گولیاں لگی تھیں اور شدید طور پر زخمی ہونے والوں میں سے ایک آپریشن ٹیبل پر دم توڑ گیا تھا۔

’ہدف بنائے جانے سے پہلے شہریوں کی شناخت کی گئی‘

بعض مقامی شہریوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آوروں نے پہلے ہدف بنائے گئے افراد کے آدھار (شناختی) کارڈ چیک کیے اورجب انہیں یقین ہوا کہ وہ سب کے سب ہندو ہیں تو پھر ان پر گولیاں چلائی گئیں۔

شہریوں نےالزام لگایا کہ واقعے کے فورا" بعد پولیس کو فون پر مطلع کیا گیا تھالیکن وہ جائے واردات پر ڈیڑھ گھنٹے بعد پہنچی۔

ایک شہری دھیرج شرما نے کہا کہ "اگر ہم پولیس کے انتظار میں بیٹھے رہتے اور زخمیوں کو خود اسپتال نہ لے جاتے تو وہ سب ہی مر گئے ہوتے۔"

ہلاک ہونے والوں کی شناخت پریتم شرما، ان کے 33سالہ بیٹےاشیش کمار، دیپک کماراور شیتل کمار کے طور پر کی گئی ہے۔ شیتل کمار کی بیوی سروج بالا اور 17 سالہ بیٹی اُریشی شرما اس واقعے میں زخمی ہونے والوں میں شامل ہیں۔

شدید طور پر زخمی ہونے والوں کو بہتر علاج کے لیے سرمائی صدر مقام جموں میں واقع گورنمنٹ میڈیکل کالج اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہدف بنائے گئے ایک مکان کے باہر نصب کیا گیا دھماکہ خیز مواد پیر کو اچانک پھٹ گیا اور اس کے ذروں کی زد میں آنے والا ایک کمسن لڑکا اور ایک کمسن لڑکی ہلاک اور چار دوسرے شہری زخمی ہوگئے۔

پولیس افسر مکیش سنگھ نے بتایا کہ علاقے میں ایک اور آئی ای ڈی نصب پائی گئی ہے جسے ناکارہ بنا دیا گیاہے۔

مظاہروں میں پاکستان کے خلاف نعرے

پیر کو ڈانگری اور راجوری کے کئی دوسرے علاقوں میں ہونے والے عوامی مظاہروں کے دوران جموں و کشمیر انتظامیہ اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔

بی جے پی اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے مظاہروں میں پاکستان کے خلاف نعرے لگائے گئے۔

بی جے پی کے جموں و کشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے الزام لگایا کہ ڈانگری میں پیش آئے ان واقعات کے پیچھے اُن کے بقول پاکستان کی پشت پناہی میں سرگرم دہشت گردوں کا ہاتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ "انہیں اور ان کے سرحد پار موجود آقاؤں کو اس گھناؤنے عمل اور معصّوم لوگوں کا خون بہانے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ وہ پہلے ہی دنیا کے سامنے رسوا ہوچکے ہیں"۔

سیکیورٹی کے خدشات: سری نگر کے کشمیری پنڈت کیا چاہتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:32 0:00

فرقہ وارانہ کشیدگی کا خدشہ

تجزیہ کار ڈاکٹر ارون کمار نے حالیہ واقعات کےاثرات سے متعلق وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی ختم ہونے کے بیانیے کی نفی ہوگئی ہے۔ یہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ دہشت گرد یہاں اب بھی موجود ہیں اور وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ہدف بنانے کے لیے اس مرتبہ راجوری کے ہندوؤں کو چنا۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں تقریبا" دو دہائیوں کے بعد ہندوؤں کو اجتماعی طور پر ہدف بنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر ارون کمار کے مطابق ظاہر ہے دہشت گرد یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی جگہ چاہے وادیٔ کشمیر ہو یا جموں کا خطہ اُن لوگوں کے لئے محفوظ نہیں ہے جنہیں وہ ٹارگٹ بنانا چاہتے ہیں۔

ارون کمار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈانگری میں پیش آنے والے واقعات کے بعد وادیٔ کشمیر میں رہنےوالے اقلیتی فرقوں کا عدم تحفظ کا احساس بڑھے گا۔ معاملے کو ایسا رنگ دیا جائے گا جس سے فرقہ ورانہ تناؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ان کے بقول، اس وقت ایک ایسا ماحول ہے جس میں دہشت گردی کے اس طرح کے واقعات کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے حالاں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG