رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں جماعتِ اسلامی کے اثاثے ضبط کرنے کی مہم تیز، وجوہات کیا ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے تحقیقاتی ادارے اسٹیٹ انوسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) نے ہفتے کو کالعدم جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کی مزید 20 املاک ضبط کر لی ہیں، جن کی مالیت ایک ارب 22 کروڑ 89 لاکھ روپے بتائی جا رہی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ایس آئی اے نے سرینگر، وسطی ضلعے بڈگام اور جنوبی اضلاع پلوامہ اور کلگام میں کئی مقامات پر کارروائی کی جب کہ تلاشی کے دوران مالی لین دین کے کاغذات اور مبینہ مجرمانہ مواد کو ضبط کر لیا۔

حکام کے مطابق جماعتِ اسلامی کے مزید لگ بھگ 20 املاک کے خلاف کارروائی کرکے انہیں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون یو اے پی اے کی شق آٹھ کے تحت ضبط کیا گیا ہے۔

جن املاک کے حوالے سے کارروائی کی گئی ہے ان میں سرینگر کے بلبل باغ کے علاقے میں واقع وہ رہائشی مکان بھی شامل ہے جو محکمۂ مال کے ریکارڈ میں سرکردہ آزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی اور ان کے ایک سابق معاون فردوس احمد عاصمی کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔

سیدعلی شاہ گیلانی کا یکم ستمبر 2021 کو طویل علالت کے بعد انتقال ہوا تھا۔ انہوں نے جماعتِ اسلامی سے علیحدگی اختیار کرکے آٹھ اگست 2004 کو نئی سیاسی جماعت 'تحریکِ حریت جموں و کشمیر' کی بنیاد ڈالی تھی۔

ایس آئی اے کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو آگاہ کیا کہ ہفتے کو چھاپوں اور املاک کو ضبط کرنے کی کارروائی جماعتِ اسلامی کے خلاف سرینگر کے بٹہ مالو پولیس تھانے میں 2019 میں درج کیے گئے ایک مقدمے کے سلسلے میں کی گئی۔

ایس آئی اے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی جموں و کشمیر میں دہشت گردی کو جاری رکھنے کے لیے رقوم کی فراہمی کو روکنے میں بڑی حد تک مدد گار ثابت ہوگی۔

بیان کے مطابق یہ کارروائی قانون کی عمل داری اور معاشرے میں ڈر اور خوف کو ختم کرنے کے ضمن میں ایک زینے کی حیثیت رکھتی ہے۔

تاہم اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کارروائی کے دوران کلگام کے ماگام علاقے میں ایک ایسا شاپنگ کمپلیکس بھی پایا گیا جو جماعتِ اسلامی کی پراپرٹی تو ہے لیکن اس میں قائم درجن بھر دکانوں کو عام تاجروں نے کرائے پر لے رکھا ہے اور وہ ان سے روزی کما رہے ہیں۔ اس لیے اسے سیل نہیں کیا گیا بلکہ صرف اس کی نشاندہی کرکے کاغذات میں اس کا اندراج کیا گیا۔

جماعتِ اسلامی کے 188 اثاثوں کی نشاندہی

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جماعتِ اسلامی اور اس کے زیرِ اہتمام سے چلائے جا رہے ادارے ‘فلاحِ عام ٹرسٹ’ کی ایسی 188 املاک کی نشاندہی کی گئی ہے، جنہیں یو اے پی اے کے تحت ضبط کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے لگ بھگ 100 املاک کو جن میں ان کے دفاتر، رہائشی مکان و فلیٹ، تجارتی مراکزو دکانیں، زرعی اراضی، میوہ باغات وغیرہ شامل ہیں، حالیہ ہفتوں میں منسلک کیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر اثاثے جماعت اسلامی کے رہنماؤں یا ارکان کے نام پر رجسٹرڈ تھیں، جن میں سید علی شاہ گیلانی بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ یو اے پی اے کے سیکشن آٹھ کے تحت حکومت کسی بھی ایسی جائیداد کو ضبط کرسکتی ہے جو ایک ایسی تنظیم کی ملکیت ہو جسے اسی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا ہو۔

جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر پر پابندی کب اور کیوں لگائی گئی؟

بھارت کی وزارتِ داخلہ نے فروری 2019 میں جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کو غیر قانونی تنظیم قرار د ے کر اس پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کی تھی۔

حکومت نے اس تنظیم پر ملک (بھارت) دشمن اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی کی صدارت میں منعقد ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس کے دوران منظوری ملنے کے بعد وزارتِ داخلہ نے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ جماعتِ اسلامی کشمیر میں ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے جو اندرونی سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کے متضاد اور منافی ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کے عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ یہ کشمیر و دیگر مقامات پر عسکریت پسندی کی حمایت کرتی ہے۔ جماعت اسلامی بھارت کے علاقے کے ایک حصے کی علیحدگی کے دعوے کی حمایت کرتی ہے۔ دہشت گردوں اور علیحدگی پسند گروہوں کو اس مقصد کے لیے لڑنے کی حمایت کرنے کے لیے ایسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے جو بھارت کی علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈالتی ہیں جب کہ جماعتِ اسلامی ملک میں قوم مخالف اور دیگر تخریبی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے تاکہ منافرت کو ہوا دے سکے۔

جماعتِ اسلامی پر پابندی عائد کرنے سے چند روز پہلے پولیس نے اس کے امیر ڈاکٹر عبد الحمید فیاض، ترجمان زاہد علی اور دوسرے رہنماؤں سمیت دو سو کے قریب ارکان کو گرفتار کیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے خلاف استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری رہنماؤں کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' کی اپیل پر وادیٴ کشمیر میں ایک روزہ ہڑتال کی گئی تھی۔

جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر، جماعتِ اسلامی پاکستان یا جماعتِ اسلامی ہند کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک الگ حیثیت رکھتی ہے اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مذہبی، سیاسی اور سماجی محاذوں پر کافی متحرک رہی ہے۔

تنظیم کے مطابق کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، اگرچہ جماعتِ اسلامی متنازع ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی ہے، یہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

تنظیم کی بنیاد ریاست میں مطلق العنان ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف شروع کی گئی عوامی جدوجہد کے دوران ڈالی گئی تھی اور یہ اسلامی اصلاح پسند تحریک میں پیش پیش رہی ہے۔

جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کیا چاہتی ہے؟

کشمیر کی متنازع حیثیت کے پیشِ نظر جماعتِ اسلامی ہند نے 1952 میں کشمیر میں سرگرم جماعت اسلامی کو خود سے الگ کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تھا، جس کے بعد مولانا احرار اور غلام رسول عبداللہ نے جماعت اسلامی جموں و کشمیر کا اپنا الگ آئین مرتب کیا۔ جسے نومبر 1953 میں پاس اور قبول کیا گیا۔

جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر 1980 کی دہائی کے دوران ایک فعال سیاسی اور مذہبی تنظیم کے طور پر ابھری، جس کے بعد اس نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لینا شروع کیا تھا۔

سن 1977 میں اس نے طلبہ اور نوجوانوں کے لیے ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کے نام سے ایک علیحدہ شاخ قائم کی تھی۔

سن 90-1989 میں ریاست میں مسلح تحریک کے آغاز پر جماعتِ اسلامی اور اسلامی جمعیتِ طلبہ سے وابستہ کئی افراد نے بھی بندوق اٹھائی۔ ان میں محمد یوسف شاہ بھی شامل ہیں جو بعد میں سید صلاح الدین کے نام سے مشہور ہوئے اور اس وقت کشمیر کی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر ہیں جب کہ پاکستان کی حامی عسکری تنظیموں کے اتحاد ‘متحدہ جہاد کونسل’ کے چیئرمین بھی ہیں۔

سن 1990 ہی میں جب حزب المجاہدین کے اُس وقت کے چیف کمانڈر ماسٹر احسن ڈار نے اسے جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کا فوجی بازو قرار دیا تو تنظیم کے اُن قائدین اور کارکنوں کو بھی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے شروع کی گئی سخت گیر مہم کی زد میں لایا گیا جو مسلح تحریک سے براہِ راست وابستہ نہیں تھے۔

گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی سے وابستہ افراد کو جانی اور مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ انہیں حکومت کے حامی سابق عسکریت پسندوں پر مشتمل گروہوں نے بھی زیرِ عتاب بنایا۔

جماعتِ اسلامی کی تعلیمی سرگرمیاں اور بھارتی حکومت کا اعتراض

جماعت اسلامی جموں و کشمیر تعلیمی محاذ پر بھی خاصی سرگرم رہی ہے۔ اس نے بھارتی کشمیر میں کئی اسکول قائم کیے۔ تاہم 1975 میں اس پر ریاستی حکومت کی طرف سے پابندی عائد کئے جانے کے بعد حکومت وقت نے ان تعلیمی اداروں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ بعد میں جماعتِ اسلامی نے فلاحِ عام کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کرکے اس کے تحت تعلیمی سرگرمیاں بحال کیں۔

چند سال کے بعد جماعتِ اسلامی پر عائد پابندی ہٹائی گئی- تقریباً تین دہائیاں پہلے جب ریاست میں شورش کا آغاز ہوا تو حکومت نے جن تنظیموں کو غیر قانونی قرار دیا تھا اُن میں جماعتِ اسلامی بھی شامل ہے۔ 2019 میں اس پر تیسری مرتبہ پابندی لگائی گئی ہے۔

حزبِ اختلاف کی بعض جماعتوں نے جن میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل ہے، جماعتِ اسلامی پر پابندی کو ایک غیر جمہوری اور غیر اخلاقی اقدام قرار دیا تھا اور نریندر مودی حکومت پر سیاسی انتقام گیری کا الزام لگایا تھا۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں نے اسے ان کے بقول تحریکِ مزاحمت کو دھونس، دباؤ اور طاقت کے ذریعے دبانے اور ریاست کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کی بھارتی حکومت کے اقدامات اور کوششوں کا ایک حصہ کہا تھا۔

حکمران بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) اور ہم خیال سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ جماعتِ اسلامی بھارت کے زیرِ انتظام میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہی تھی۔ لہٰذا اس پر پابندی عائد کرکے حکومت نے ایک اچھا اقدم اٹھایا ہے بلکہ اس طرح کا فیصلہ بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا۔

بھارت کی حکومت نے رواں برس جون میں فلاحِ عام ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام کشمیر میں سے چلائے جا رہے 325 اسکولوں میں درس و تدریس پر پابندی لگائی تھی اور انہیں 15 دن کے اندر اندر سیل کرنے کے احکامات صادر کیے تھے۔

محکمۂ تعلیم کی طرف سے جاری کیےگئے ایک حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ان اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبہ اور طالبات اپنے اپنے علاقے میں واقع سرکاری اسکولوں میں فوری طور پر داخلہ لے سکتے ہیں۔

فلاحِ عام ٹرسٹ کی طرف سے چلائے جا رہے ان اسکولوں میں جہاں بارہویں جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی، زیرِ تعلیم طلبہ اور طالبات کی تعداد ایک لاکھ کے قریب بتائی گئی تھی۔

حزبِ اختلاف کی تنقید

فلاحِ عام ٹرسٹ اسکولوں پر بندش کے حکومتی فیصلے کی اپوزیشن جماعتوں نے شدید تنقید کی تھی اور سوشل میڈیا پر بھی اس کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

بعض ناقدین نے اس اقدام کو بھارت کی موجودہ حکومت کے ہندوتو ایجنڈے کا ایک حصہ قرار دیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے درجنوں مسلمان سرکاری ملازمین کو اُن پر بھارت دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرکے گزشتہ تین برس کے دوراں نوکریوں سے برطرف کیا گیا ہے اور اب فلاحِ عام ٹرسٹ کے اسکولوں کے اساتذہ اور دوسر ے عملےکو بیک جنبشِ قلم بے روز گار بنایا جارہا ہے۔

تاہم حکومت نے فلاحِ عام ٹرسٹ اسکولوں پر بندش کے اقدام کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ ٹرسٹ کو 11 مئی 1990 کو جاری کیے گئے ایک سرکاری حکم نامے کے تحت ایک "غیر قانونی تنظیم" قرار دیا گیا تھا۔ جس کی تجدید 23 اکتوبر 2019 کو جاری کیے گئے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود اس کے اہتمام سے چلائے جا رہے اسکولوں میں درس و تدریس کا کام جاری رکھا گیا۔ جو قانون کی صریحا" خلاف ورزی ہے۔

حکام نے الزام لگایا تھا کہ فلاحِ عام ٹرسٹ کے اہتمام سے چلائے جارہے ان اسکولوں میں "جہادی لٹریچر" کی ترسیل و ترویج جاری ہے اور طالب علموں تک ایسا قابلِ اعتراض پڑھنے کا مواد پہنچایا جاتا ہے جو ان کے ذہنوں کو گندہ کردیتا ہے اور انہیں تشدد اور دہشت گردی کی طرف مائل کرنے کا مؤجب بن رہا ہے۔

حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ این آئی اے اور جموں و کشمیر کی اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی نے ٹیرر فنڈنگ کے الگ الگ معاملات میں تحقیقات کے دوران پایا کہ ملک اور ملک کے باہر کشمیر میں دینی سرگرمیوں کو جاری رکھنے اور تعلیم و تربیت کے کاموں کے نام پر جمع کی گئی بھاری رقوم کا ایک بڑا حصہ عسکری تنظیموں بالخصوص حزب المجاہدین کو منتقل کیا گیا ہے۔

فلاحِ عام ٹرسٹ کے منتظمین نے ان الزامات اور دعوؤں کی سختی کے ساتھ تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے اسکولوں میں جموں و کشمیر بوڑد آف اسکول ایجوکیشن سے منظور شدہ نصابِ تعلیم رائج تھا جو سرکاری اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ٹرسٹ کے ان اسکولوں میں علم، اخلاق اور دینیات کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں جو ایک اچھے اور صحت مند سماج کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے۔

مبینہ ٹرر اِیکو سسٹم کو ختم کرنے کے عزّم کا اظہار

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے حال ہی میں کہا تھا کہ دہشت گردانہ ایکو سسٹم کو توڑنے اور بھارت دشمن سرگرمیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی رقوم سے کھڑے کیے گئے اثاثوں کو سیل یا اٹیچ کرنے، یہاں تک کہ انہیں مسمارکرنے کی کارروائی جاری رہے گی۔

اس سے پہلے ایس آئی اے کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ان پراپرٹیز کو ضبط کرنے سے علیحدگی کے لیے چلائی جا رہی سرگرمیوں کے لیے رقوم کی فراہمی کو روکا جا سکے گا اور اس طرح ملک دشمن عناصر اور دہشت گرد نیٹ ورکس کے ایکوسسٹم کو منہدم کرنے میں مدد ملے گی۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور حزبِ اختلاف کی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کی طرف سے تشدد اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے نام پر نجی املاک کو ضبط یا سیل کرنے کی حالیہ کارروائیوں کی مذمت کی تھی ۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG