رسائی کے لنکس

پیرس کی کردبرادری غم و غصے اور بے یقینی کا شکار



شامی کردوں نے 25 دسمبر 2022 کو ایک احتجاج کے دوران تین مقتول کردوں کی تصاویر پر مشتمل ایک بینر پکڑا ہواہے جو پیرس میں ایک نسل پرست کے حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی
شامی کردوں نے 25 دسمبر 2022 کو ایک احتجاج کے دوران تین مقتول کردوں کی تصاویر پر مشتمل ایک بینر پکڑا ہواہے جو پیرس میں ایک نسل پرست کے حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

فرانس میں ایک ایسے وقت میں کردوں کے لیے ان کامستقبل ایک بہت ہی حساس مسئلہ بن گیا ہے جب پیرس میں جمعہ کے روز ایک کرد ثقافتی مرکز پر فائرنگ میں تین افراد ہلاک ہوگئے۔پولیس ایک 69 سالہ سفید فام شخص کو حراست میں لےکر تفتیش کر رہی ہے جس نے ان حملوں کا اعتراف کیا ہے۔

اس شخص کوجس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے، جمعہ کو پیرس کے مصروف وسطی علاقےمیں کرد ثقافتی مرکز اور قریبی کرد کیفے میں دو مردوں اور ایک عورت کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

ان ہلاکتوں نے ایک ایسی کمیونٹی کو ہلا دیا ہے جو تین کرد کارکنوں کے حل نہ ہونے والے قتل کی 10ویں برسی کی یاد منانے کی تیاری کر رہی تھی اور اس واقعے کے بعد مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

بلوہ پولیس نے فائرنگ کے مقام سے کچھ ہی فاصلے پرمشتعل ہجوم کو منتشر کرنےکے لیے آنسو گیس کے گولے داغے ۔

سن ۲۰۱۳ میں بھی تین کرد خواتین کو پیرس میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔اے پی فوٹو
سن ۲۰۱۳ میں بھی تین کرد خواتین کو پیرس میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔اے پی فوٹو

تاہم فرانس میں کردوں کے مستقبل پر شکوک و شبہات اورعدم تحفظ کا احساس بدستور برقرار ہے۔یہ کہا ہے فرانس میں کرد ڈیموکریٹک کونسل (CDKF) کے ترجمان، اگیت پولات نے، ’ ہم نے فرانسیسی حکام سے اپیل کی ہے کہ ہماری بات سنی جائے۔ ہم فرانسیسی حکام سے ٹھوس اقدامات کی توقع کرتے ہیں۔‘

اگیت پولات کہتے ہیں، "قتل کے بعد سےمستقل نگرانی کی جارہی ہے۔ یہاں ہمارے احاطے کے سامنے 24 گھنٹے پولیس کی موجودگی ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر، ہم کہہ سکتے ہیں کہ حفاظتی انتظامات کو تقویت دی گئی ہے۔ ہم اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ لیکن کیا اس اضافی تحفظ سےمزید ہلاکتوں کو روکا جاسکتا ہے؟"

فرانس کی کرد برادری کے سینکڑوں افراد نے جمعہ کے مہلک حملے کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک مارچ میں حصہ لیا۔

فرانس میں کرد ڈیموکریٹک کونسل (CDK-F) کے زیر اہتمام پرامن مظاہرہ اس ثقافتی مرکز سے شروع ہوا جسے نشانہ بنایا گیا تھا اور اس جگہ پر ختم ہوا جہاں 2013 میں تین کرد کارکنوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ احتجاج اس وقت ہوا جب تین کردوں کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے مشتبہ شخص کو باضابطہ تفتیش کے تحت رکھا گیا ہے۔

پیرس میں ایجنسی فرانس پریس کے نامہ نگار روری ملہولینڈ نے ایک ٹویٹ میں پولیس اور احتجاج کرنے والےبرہم کردوں کے درمیان جحڑپوں کی یہ ویڈیو پوسٹ کی تھی۔

مشتبہ شخص کو عہدہ دارنسل پرستی پر مبنی حملوں کے حوالے سے جانتے ہیں اور علاقے میں دہشت پھیلانےکے دوران اس کے چہرے پر زخم آئے تھے۔

وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینین نے کہا کہ ریٹائرڈ ٹرین ڈرائیور دانستہ طور پر غیر ملکیوں کو تلاش کر رہا تھا۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ "یقینی نہیں ہے کہ اس شخص کا مقصد تخصیص کے ساتھ کردوں کو ہلاک کرنا تھا۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے بھی ایک ٹوئٹ میں متاثرین سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئےکہا تھاکہ فرانس کے کرد پیرس کے قلب میں ایک گھناؤنے حملے کا نشانہ بنے ہیں۔

پیرس میں کرد برادری کے ارکان نے کہا کہ انہیں حال ہی میں پولیس نے کرد اہداف کو لاحق خطرات سے خبردار کیا تھا۔

قریبی رہائشیوں اور تاجروں کو اس حملے نے ایک ایسے وقت میں ہلادیا ہے جب پیرس میں کرسمس ویک اینڈ سے قبل تہواروں کی چہل پہل اور خریداری جاری تھی۔

علاقے کی میئر، الیگزینڈرا کورڈبارڈ نے جائے وقوعہ پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھاکہ شوٹنگ کا اصل محرک ابھی تک غیر واضح ہے۔

پیرس کے پراسیکیوٹر لارے بیکو نے کہا تھاا کہ انسداد دہشت گردی کے وکلائے استغاثہ، تفتیش کاروں سے رابطے میں ہیں، لیکن انہیں دہشت گردی کے محرک کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔

کرد برادری کے نمائندوں نے فائرنگ کو دہشت گردحملہ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے پیر کی دوپہر کو خاموش احتجاج کی کال بھی دی جہاں فائرنگ ہوئی تھی۔

یہ رپورٹ ایجنسی فرانس پریس کی معلومات پر مبنی ہے۔

XS
SM
MD
LG