رسائی کے لنکس

ٹارگٹ کلنگ کا خوف، ہندو سرکاری ملازمین کا کشمیر میں خدمات انجام دینے سے انکار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ہزاروں ہندو سرکاری ملازمین خدشات کے پیشِ نظر مسلم اکثریتی وادی میں خدمات انجام دینے سے انکار کر رہے ہیں۔ رواں برس مبینہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے ساتھیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سرکاری ملازمین کا یہ اقدام سامنے آیا ہے جب کہ حکومت کے 'کام نہیں تو تنخواہ نہیں' کے فرمان کے بعد احتجاج میں تیزی آ رہی ہے۔

ان سرکاری ملازمین نے گزشتہ دنوں کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں میں کئی مظاہرے کیے تھے۔ایک مظاہرہ نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی دفتر کے باہربھی کیا گیا۔ سرکاری ملازمین کے ایک ترجمان نے نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران حکومت پر بے حسی برتنے کا الزام لگایا تھا۔

کشمیر کی انتظامیہ کے سربراہِ لیفٹینینٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان ملازمین کو 31 اگست 2022 تک کی تنخواہیں دی جا چکی ہیں البتہ یہ ممکن نہیں کہ وہ گھر بیٹھیں اور ہم انہیں تنخواہ دیتے رہیں۔

ان کے اس دو ٹوک اعلان سے مشتعل ملازمین کی ایک رہنما مدھو بالا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انہیں ہماری تنخواہیں روکنے دیجیے۔ جب تک ہمارا یہ مطالبہ کہ ہمیں کشمیر سے تبدیل کیا جائے، پورا نہیں ہوتا، ہم ڈیوٹی پر نہیں لوٹیں گے۔ تنخواہیں جان سے اہم نہیں ہیں۔

کشمیر میں لگ بھگ ساڑھے تین ہزار ایسے سرکاری ملازمین تعینات ہیں جن کا تقرر شیڈول کاسٹ اور دوسرے محفوظ زمروں کے لیے مخصوص کوٹے کے تحت ہوا تھا۔ ان تمام ملازمین کا تعلق کشمیر کے ہندو اکثریتی خطے جموں سے ہے۔

رواں برس 31 مئی کو ان ہندو ملازمین میں سے ایک 36 سالہ رجنی بالا نامی خاتون ٹیچر کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے جنوبی ضلع کلگام میں اسکول کے باہر گولی مار کر قتل کیا تھا۔

ٹارگٹ کلنگ کے اس واقعے کے فوری بعد یہ ملازمین ہڑتال پر چلے گئے تھے اور سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر اپنے گھروں تک محدود ہو گئے تھےجب کہ اب واپس آکر وادی میں ڈیوٹی پر حاضر ہونے سے صاف انکار کر رہے ہیں۔

اسی طرح کشمیری برہمن ہندوؤں کے لیے جو عرفِ عام میں کشمیری پنڈت کہلاتے ہیں، بھارت کے وزیرِ اعظم کےخصوصی جاب پیکیج کے تحت کشمیر میں تعینات پانچ ہزار سرکاری ملازمین بھی ایک ساتھی کی ٹارگٹ کلنگ سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ ڈیوٹی پر لوٹنے سے صاف انکار کر رہے ہیں۔

سال 2008 میں متعارف کرایا گیا یہ اسپیشل جاب پیکیج حکومتِ بھارت کی اُن کوششوں اور اقدامات کا ایک حصہ تھا جن کا مقصد 90-1989 میں مسلح تحریکِ مزاحمت کے آغاز پر تشدد سے بچنے کے لیے وادیٴ کشمیرسے نقل مکانی کرنےوالے اقلیتی کشمیری پنڈتوں کی وطن واپسی کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا۔ اس جاب پیکیچ کے تحت کشمیر میں مختلف سرکاری محکموں میں چھ ہزار کے قریب اسامیاں پیدا کی گئیں اور فوری طور پر ان میں سے چار ہزار 600 کو پر کیا گیا۔

رواں برس 12 مئی کو وزیرِ اعظم کے خصوصی جاب پیکیج کے تحت وادی میں تعینات ایک محکمہ مال میں ملازمت کرنے والے کشمیر پنڈت راہول بھٹ کو ضلع بڈگام کے چاڈورہ علاقے میں ان کے دفتر میں قتل کیا گیا۔

پولیس نے اس ٹارگٹ کلنگ کے لیے بھی مسلمان عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔اس قتل کے بعد سےخصوصی جاب پیکیج کے تحت وادی میں تعینات سرکاری ملازمین ڈیوٹی سے غیر حاضر ہیں۔ حکومت نے ان کی بھی تنخواہیں روک دی ہیں۔

گزشتہ سات ماہ سے ہڑتال کے دوران یہ ملازمین وادی کشمیر سے منتقلی کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں یا تو جموں میں تعینات کیا جائے یا بھارت کے کسی بھی علاقے میں بھیج دیا جائے۔

احتجاج کرنے والے ملازمین کے ایک ترجمان ونود ترسل نے بتایا کہ ’’اگر حکومت چاہے تو ہمیں بھارت کے کسی بھی حصے میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔ ہم کشمیر کے علاوہ کہیں بھی ڈیوٹی انجا م دینے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ ہم بے موت نہیں مرنا چاہتے۔‘‘

دوسری جانب لیفٹننٹ گورنر سنہا کا کہنا ہے کہ ان ملازمین کو جموں میں تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ کشمیر ڈویژن کے ملازمین ہیں جنہیں جموں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم (جموں و کشمیرکے) چیف سیکریٹری نے ان کے مطالبات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اگر گنجائش ہوئی تو ٹرانسفر پالیسی ضرور ترتیب دی جائے گی۔

مدھو بالا نے کہا کہ ہمارے جیسے ملازمین کے لیے حکومت کی طرف سے ایک ایسی ٹرانسفر پالیسی تشکیل دینا ناگزیر ہے جس میں ان مشکلات کا خیال رکھا گیا ہو جن کا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم میں سے اکثر 15 یا 16 سال سے کشمیر میں خدمات انجام دیتے آئے ہیں ۔ اگر ہمیں اب بھی وہاں سے ٹرانسفر نہیں کیا جاتا تو کب کیا جائے گا۔ ہماری ریٹائرمنٹ میں اب زیادہ وقت نہیں رہا ہے۔

'آل جموں بیسڈ ریزرو کیٹگری ایمپلائز ایسوسی ایشن کے ایک ترجمان نے کہا کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رہے گا۔

یہ ملازمین رواں برس یکم جون سےجموں کے پناما چوک پر واقع ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر پارک میں باری باری دھرنے پر بیٹھ رہے ہیں۔

منوج سنہا کہتے ہیں کہ حکومت ان ملازمین کے سیکیورٹی خدشات کا جائزہ لے رہی ہے بلکہ کئی ایک کو پہلے ہی دور کیا جا چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اُن ملازمین کو جو دور دراز اور غیر محفوظ سمجھے جانے والے علاقوں میں تعینات تھےتبدیل کرکے نسبتا" محفوظ تحصیل اور ضلعے کے صدر مقام میں تعینات کیا گیا ہے ۔ نیز ان سب کو ایسی سرکاری رہائش فراہم کی جا رہی ہیں جہاں سیکیورٹی کا باضابطہ انتظام ہو۔ مختلف مقامات پر چھ ہزار فلیٹس تعمیر کیے گئے ہیں یا ان پر کام تیزی سے جاری ہے۔

مختلف سیاسی جماعتوں نے احتجاج کرنے والے ملازمین کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انہیں جموں میں تعینات کرنے کے ان کے مطالبے کو منظور کرے۔

بھارتی کشمیر میں پنڈت ایک بار پھر نقل مکانی کیوں کر رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:02 0:00

سابق وزیرِ اعلیٰ اور ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کے چیئرمین غلام نبی آزاد نے کہا ہے کہ جب تک کشمیر میں صورتِ حال بہتر نہ ہوجائے، ان ملازمین کو جموں میں تعینات رکھا جائے۔

ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے الزام لگایا ہے کہ حکومت جموں و کشمیر کی صورتِِ حال میں بہتری کے اپنے دعوے کی تشہیر کے لیے ان ملازمین کو کشمیر میں ڈیوٹی انجام دینے پر مجبور کر رہی ہے اور اس طرح انہیں قربانی کا بکرّا بنایا جا رہا ہے

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ ان ملازمین کو الٹی میٹم دینے کے بجائے حکومت کو درمیان کا راستہ اختیارکرنا چاہیے۔



احتجاج کرنے والے ملازمین کے رہنماؤں کی تنقید اور جموں میں دفتر کے باہر مظاہرے کے بعد بی جے پی کے رہنماؤں نے بھی ان کے حق میں بیانات دینا شروع کر دیے ہیں۔

بی جے پی کے ایک مقامی رہنما دویندر سنگھ رانا نے ملازمین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانسفر پالیسی ضرور بنائی جائے گی اور جموں سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کو وادی میں ٹارگٹ کلنگز کے پیشِ نظر نشانہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ کچھ بھی ہوجائے ٹرانسفر پالیسی ضرور بنے گی یا پھر ہم (حکومت کا ساتھ) چھوڑ دیں گے"۔

ان کے اس اعلان کی بی جے پی کے صوبائی صدر رویندر رینہ نے کم و پیش ان ہی الفاظ کا اظہار کرکے تائید کی ہے۔


حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ اگر مسئلے کو فوری طور پر حل نہیں کیا جاتا ہے تو وہ ایک بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ پارٹی کے ایک لیڈر ہیرا لال نے کہا کہ اگر احتجاج کرنے والے ملازمین کے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے تو کانگریس ہمہ گیر احتجاج کرے گی۔

اس دوران ہڑتالی کشمیری پنڈت ملازمین نے انہیں وادی سے تبدیل نہ کرنےاور ان کی تنخواہیں روکنے کے حکومت کے فیصلے کےخلاف منگل کو بھارت کے سینٹرل ایڈمنسٹریٹیو ٹریبونل میں اپیل دائر کردی ۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG