روس کے ایک ٹرکوں کا قافلہ یوکرین کی سرحد کے قریب بڑھ رہا ہے جبکہ ماسکو اور کیئف میں اس کے اصل مقصد پر تناؤ میں اضافہ دیکھا جاریا ہے۔
قافلے کے تقریباً 300 ٹرک جمعرات کو روسی شہر وورونز پہنچ کر اس تنازعے کی وجہ سے آگے نا بڑھ سکے۔ روس کے مطابق ان ٹرکوں پر امدادی سامان لدا ہوا ہے۔
ماسکو کا اصرار ہے کہ امدادی سامان بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی (آئی سی آر سی) سے روابط کے بعد بھیجا جارہا ہے۔ لیکن بدھ کو کمیٹی کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس قافلے کی منزل کا بھی علم نہیں۔
کئیف حکومت روس کو باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے اور دیگر امداد فراہم کرنے کے الزامات لگاتی رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماسکو اس قافلے کو آڑ بنا کر بھرپور حملہ کرنا چاہتا ہے۔
ماسکو ان الزامات کو نا معقول قرار دے چکا ہے۔
اس سے پہلے یوکرین نے کہا تھا کہ ٹرکوں کی تلاشی کے بعد ہی انہیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ مزید برآں ان کا کہنا تھا کہ روسی ٹرکوں پر لدا ہوا سامان سرحد پر ریڈ کراس کے ٹرکوں پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔
آئی سی آر سی نے منگل کو بتایا تھا کہ وہ ان ٹرکوں میں موجود سامان سے متعلق روس کی طرف سے معلومات کا انتظار کر رہے ہیں۔
ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ یوکرین کی فورسز اور روس کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کے درمیان لڑائی کی وجہ سے مشرقی یوکرین کا ایک بڑا حصہ طبی امداد سے محروم ہونے کے علاوہ اسے پانی اور بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس لڑائی سے دس اگست تک ہونے والی اموات کی تعداد دوگنا ہو کر لگ بھگ 2100 تک پہنچ گئی ہے۔
ادھر روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے کرائمیا بہنچ کر جمعرات کو پارلیمان سے خطاب کیا۔ یہ علاقہ مارچ میں یوکرین سے علیحدہ ہو کر روس میں شامل ہوا تھا۔
جمعرات کو ہی یوکرین کی پارلیمان نے ایک قانون منظور کرتے ہوئے ان روسی کمپنیوں اور افراد پر پابندی عائد کی جو کہ یوکرین میں باغیوں کو حمایت اور مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔
حکومت نے پہلے ہی روس اور دیگر مالکوں کے شہریوں اور 65 روسی کمپنیوں کی فہرست ترتیب دے رکھی ہے جن پر پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔
قانون کی منظوری کے بعد وزیراعظم ارسنی یتسنیوک کا پارلیمان سے خظاب میں کہنا تھا کہ یوکرین نے تاریخی اقدام کیا ہے۔
’’پابندیوں سے متعلق قانون کی منظوری سے ہم نے ظاہر کیا ہے کہ ملک اپنا تحفظ کرنے کے قابل ہے۔ یہ قانون ان جرات کرنے والوں یا دہشت گردوں کے لیے جواب ہے جو ہماری قومی سلامتی، حکومت اور لوگوں کے لیے خطرہ ہیں۔‘‘