کرونا وائرس ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور دنیا میں اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو رہا ہے اور ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ دنیا اب اس وائرس کے ساتھ جینا سیکھ رہی ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک اب کاروبارِ زندگی کو معمول پر لانے اور اپنی معیشت کو ضروری حفاظتی اقدامات کے ساتھ دوبارہ کھولنے کے اقدامات کر رہے ہیں جن میں اب ترکی بھی شامل ہو گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار بیزہان ہمدرد نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دس ہفتوں کی بندش کے بعد ترکی میں نمازِ جمعہ کے لیے مسجدوں کو کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ملک بھر کی مساجد میں لوگوں نے جماعت کے ساتھ نماز بھی ادا کرنا شروع کر دی ہے۔
تاہم 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کو مساجد میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر بھی بہت سے بزرگ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجدوں کا رخ کر رہے ہیں۔
نماز کے دوران سماجی فاصلے اور دوسرے حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کرایا جا رہا ہے۔ اور بہت سی مساجد میں نمازیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے قبل ماسک اور دوسرا حفاظتی سامان بھی دیا گیا۔
ڈاکٹر فرقان حمید ترکی میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ترکی میں حالات اب قابو میں ہیں۔ پہلے روزانہ 125 سے 130 لوگ ہلاک ہو رہے تھے اب یہ شرح کم ہو کر 20 سے 25 روانہ پر آ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مساجد کے کھولے جانے کے بعد اب یکم جون سے زندگی اور معیشت کے دوسرے شعبوں کو بھی مرحلہ وار کھولنے کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ دنیا کے دوسرے تمام ملکوں کی طرح ترکی کی معاشی صورت حال بھی اچھی نہیں ہے۔ اور ملک میں شرح نمو جو پہلے ساڑھے تین فیصد سے زیادہ تھی، وہ بہت گر گئی ہے۔
ڈاکٹر فرقان نے بتایا کہ بے روزگاری کی شرح زیادہ نہیں ہے کیونکہ کسی بھی آجر کو تین ماہ تک اپنے کسی بھی ملازم کو نوکری سے نکالنے کی اجازت نہیں تھی۔ البتہ روزنداری یاروزانہ کی سطح پر کام کرنے والوں کے مسائل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب کاروبار مکمل اور ضروری حفاظتی اقدامات کے ساتھ کھولے جا رہے ہیں۔ کیونکہ اس وائرس کی دوسری لہر کا خطرہ موجود ہے جس کے پیش نظر احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔