ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ہونے والے براہ راست صدارتی انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق موجودہ وزیراعظم رجب طیب اردوان نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔
ترکی کے الیکشن کمیشن کے مطابق اب تک ڈالے گئے تمام ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے اور غیر حتمی نتائج کے مطابق اردوان نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے۔
اب تک سامنے آنے والے نتائج کے مطابق طیب اردوان کے دو مخالف اُمیدواروں ’او آئی سی‘ کے سابق سربراہ کمال الدین احسان اوغلو نے 39 فیصد اور کرد سیاستدان صلاح الدین دمیرتاس نے 9 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
طیب اردوان اس وقت بطور وزیراعظم تیسری مدت پوری کر رہے ہیں اور صدارتی انتخاب میں کامیابی سے اُن کا دور اقتدار مزید دس سال تک ہو سکتا ہے۔
اردوان کے حامیوں کا ماننا ہے کہ ملک کی ترقی اور سیکولر روایت کی بجائے مذہبی روایات کی پاسداری اُن کی قیادت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
وزیراعظم نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ ترکی کے موجودہ قوانین کے تحت صدر کو حاصل تمام اختیارات کا مکمل استعمال کریں گے۔
ان اختیارات میں پارلیمان اور کابینہ کا اجلاس بلانا، وزیر اعظم اور وزراء کی کونسل کی تقرری اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری بھی شامل ہے۔
ماضی میں ترکی کے صدر کا عہدہ ایک رسمی عہدہ رہا، لیکن اردوان کا کہنا ہے کہ وہ صدر کے عہدے کو انتظامی عہدہ بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کریں گے۔
اتوار کو صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے بعد انھوں نے کہا کہ یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔
اردوان نے کہا کہ ’’جیسا کہ ہم بار بار کہ چکے ہیں کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ہمارے لوگوں نے صدر کا براہ راست انتخاب کیا ہے۔ اس حوالے سے یہ بہت ہی اہم ہے۔‘‘
اُن کے ناقدین بطور وزیر اعظم اُن کے مذہبی رجحانات اور ان کے حاکمانہ طرز حکومت پر تنقید اور تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
اردوان نے ہزاروں پولیس اور استغاثہ کے اہلکاروں کو برطرف کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی خفیہ ایجنسی کے اخیتیارات میں اضافہ بھی کیا۔
انھوں نے یوٹیوب اور سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر پابندی لگا دی، جب انہیں اور ان کے خاندان کو مبینہ بدعنوانی کے الزامات کا سامنا تھا۔
جبکہ صدارتی مہم میں اردوان کا نعرہ ’’قوم کا عزم اور قوم کی طاقت‘‘ تھا۔