پاکستان کے صوبے پنجاب کی پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد حسین رضوی کو سات ماہ بعد رہا کر دیا ہے۔
سعد حسین رضوی کو لاہور کی کوٹ لکھ پت جیل سے بدھ کی شام رہا کیا گیا جس کے بعد وہ ملتان روڈ کے علاقے چوک یتیم خانہ کے قریب مسجد رحمت اللعالمین پہنچے جہاں ٹی ایل پی کے کارکنوں نے اُن کا استقبال کیا۔
سعد رضوی اپنے والد مولانا خادم حسین رضوی کے جمعے سے شروع ہونے والے عرس کی تقریبات میں شریک ہوں گے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سعد رضوی کو حکومت اور ٹی ایل پی کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت رہائی ملی ہے۔
وزیرِ قانون پنجاب راجہ بشارت کہتے ہیں کہ سعد رضوی کی رہائی پنجاب حکومت نے نہیں کی۔ ان کے بقول سعد رضوی کا کیس فیڈرل ریویو بورڈ میں تھا۔ اگر کسی کی رہائی سے امن و امان قائم ہوتا ہے تو اس عمل کو سراہنا چاہیے۔
لاہور میں ایوانِ صنعت و تجارت میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ بشارت نے کہا کہ دھرنوں سے تحریکوں کو روکنے کے لیے کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ اُن کے احکامات سے نہیں ہوتی۔ وہ صرف راستے بند کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کی درخواست پر تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم جماعت قرار دیا تھا اور سعد حسین رضوی کا نام کالعدم افراد کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔
حکومتی اقدام کے خلاف ٹی ایل پی کے کارکنوں نے 19 اکتوبر کو یتیم خانہ چوک پر دھرنا دیا جو بعد ازاں اسلام آباد کی طرف مارچ میں بدل گیا۔
مظاہرین کی پیش قدمی روکنے کے لیے پولیس اور ٹی ایل پی کے کارکنوں کے درمیان مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں پنجاب پولیس کے سات اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
کشیدگی بڑھنے کے بعد حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ جس کے نتیجے میں ٹی ایل پی کو کالعدم جماعت کی فہرست سے نکالا گیا، گرفتار کارکنوں کو رہائی ملی اور سعد رضوی کی رہائی بھی عمل میں آئی۔
یاد رہے سربراہ ٹی ایل پی کو رواں برس 11 اپریل کو لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد اُن پر انسدادِ دہشت گردی کی دفعات سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
حکومت سے ہونے والے معاہدے کے تحت ٹی ایل پی کے تمام منجمند اکاؤنٹس بحال کر دیے گئے ہیں اور اب پارٹی کے ذمے داران اپنے اکاؤنٹس سے رقوم نکلوا یا جمع کرا سکتے ہیں۔
حکومتی نوٹی فکیشن کو انسداد دہشت گردی کے ادارے 'نیکٹا' کو بھی بھیجا گیا تھا تاکہ کالعدم جماعتوں کی فہرست میں 79 نمبر پر موجود اس جماعت کا نام نکالا جا سکے۔
ٹی ایل پی کو اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے سے روکتے ہوئے حکومت نے اس جماعت سے مذاکرات کے لیے علما کی خدمات حاصل کی تھیں۔
حکومت کی جانب سے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور علی محمد خان نے علما کے ساتھ مذاکرات کیے۔
مذاکرات کے بعد حکومت نے ایک خفیہ معاہدے کے بارے میں بتایا جس کی تفصیلات سے میڈیا اور عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس بارے میں تفصیلات مناسب وقت پر سامنے آ جائیں گی لیکن حکومت نے اب تک اس معاہدے کی مکمل تفصیلات عام نہیں کیں۔
پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے اس معاہدے کی تفصیل سے عوام کو آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ماضی میں بھی ٹی ایل پی کے احتجاج اور اسلام آباد کی جانب مارچ کی تاریخ رہی ہے۔
حکومت نے گزشتہ برس 16 نومبر کو اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی جماعت ٹی ایل پی کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے چار نکاتی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت حکومت کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمان سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا تھا۔
ٹی ایل پی نے یہ دھرنا فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف دیا جا رہا تھا اور مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ فرانسیسی سفیر کو بے دخل کر کے فرانس سے تعلقات ختم کیے جائیں۔
اس ضمن میں حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے بعد فروری 2021 میں مذکورہ جماعت اور حکومت کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس کے تحت حکومت کو 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے وعدے پر عمل کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔
ٹی ایل پی کے ساتھ ہونے والے دوسرے معاہدے پر اُس وقت کے وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ اور وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کے دستخط موجود تھے۔ اس معاہدے پر بھی عمل درآمد نہ ہوا اور 15 اپریل کو جماعت کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔
بعض حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ اس جماعت کو سیاسی دھارے میں لایا جا رہا ہے، لیکن یہ جماعت تمام انتخابات میں پہلے ہی حصہ لے رہی تھی کیوں کہ انہیں کالعدم قرار دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ کے ریفرنس کے ذریعے اس جماعت پر پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔
گزشتہ الیکشن میں ٹی ایل پی نے ملک بھر سے 22 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔