رسائی کے لنکس

ٹی ایل پی سے معاہدے کے بعد پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران کے تبادلے کیوں کیے گئے؟


پنجاب کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے صوبے بھر میں گریڈ 19 سے گریڈ 21 تک کے 20 پولیس افسروں کے تبادلوں کے احکامات جاری کیے ہیں۔ سرکاری اعلامیے میں تبادلوں کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ (فائل فوٹو)
پنجاب کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے صوبے بھر میں گریڈ 19 سے گریڈ 21 تک کے 20 پولیس افسروں کے تبادلوں کے احکامات جاری کیے ہیں۔ سرکاری اعلامیے میں تبادلوں کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ (فائل فوٹو)

پنجاب میں​ حکومت نے صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت صوبے بھر میں پولیس میں اعلیٰ سطح پر اچانک تبدیلیاں کی ہیں۔ سرکاری مراسلے میں پولیس کی اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں فوری نافذ العمل ہوں گی۔

پنجاب کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے صوبے بھر میں گریڈ 19 سے گریڈ 21 تک کے 20 پولیس افسروں کے تبادلوں کے احکامات جاری کیے ہیں۔ سرکاری اعلامیے میں تبادلوں کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

اعلامیے کے مطابق چیف پولیس افسر لاہور محمود ڈوگر، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شارق جمال، ڈی آئی جی لاجسٹکس، ایس ایس پی آپریشنز لاہور سمیت دیگر عہدے داروں کو تبدیل کیا گیا ہے۔

جس کے بعد کہا جا رہا ہے کہ موجودہ تبدیلیاں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مارچ کو روکنے میں ناکامی پر کی گئی ہیں۔

گزشتہ چند روز سے ایسی خبریں زیرِ گردش تھیں کہ ٹی ایل پی کے مارچ کو لاہور میں نہ روکے جانے پر حکومت پولیس افسران سے خوش نہیں ہے۔ جس کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا امکان ہے۔

اطلاعات کے مطابق تبدیل کیے گئے افسران کے خلاف خفیہ تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں کہ پولیس کیوں ٹی ایل پی کے مارچ کو نہیں روک سکی تھی۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے معاونِ خصوصی حسان خاور کہتے ہیں کہ حکومت نے جو بھی قدم اٹھانا ہے قانون کے دائرے میں رہ کر اٹھانا ہے۔ عدالتی معاملات عدالت نے دیکھنے ہیں۔ ٹی ایل پی کے ساتھ پر امن مذاکرات پاکستان کی جیت ہے۔

لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں ٹی ایل پی سے حکومت کے معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو معاہدے میں لکھا گیا ہے اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ اگر وزیرِ اعظم سختی اختیار کریں تو کہا جاتا ہے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ نرمی کریں تو کہا جاتا ہے کہ یو ٹرن لے لیا ہے۔

پولیس میں تبدیلیوں کے حوالے سے حسان خاور کا کہنا تھا کہ پولیس افسران کو تبدیل کرنا وزیرِ اعلیٰ کا صوابدیدی اختیار ہے۔ جنہیں پولیس اہل کاروں کی ہلاکتوں میں ملوث پایا گیا ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ پولیس اہل کاروں نے قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اپنی جانیں قربان کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے۔

فرانس کے سفیر کی بے دخلی؛ 'ٹی ایل پی کو پارلیمنٹ کا فیصلہ قبول ہو گا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:20 0:00

گزشتہ ماہ 19 اکتوبر کو لاہور میں تحریک لبیک پاکستان نے اپنے احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ جسے بعد ازاں دھرنے میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور پھر اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دیا گیا تھا۔

ٹی ایل پی کے مارچ نے پولیس کا پہلا حصار ایم اے او کالج چوک لاہور میں توڑا جب کہ دوسرا حصار شاہدرہ چوک میں توڑا تھا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس کے مطابق ٹی ایل پی کے کارکنوں کی تعداد ہر مرحلے میں پولیس سے زیادہ تھی۔

پنجاب پولیس اپنی تمام تر طاقت کے باوجود اس مارچ کی پیش قدمی روکنے میں ناکام رہی ہے۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ پولیس کی جدید تقاضوں کے مطابق تربیت اور بروقت معلومات کا تبادلہ نہ ہونا پولیس کی ناکامی کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

سابق انسپکٹر جنرل پولیس شوکت جاوید کے نزدیک پولیس میں حالیہ بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی وجہ تو معلوم نہیں۔ البتہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر چلنے والی خبروں کے مطابق حالیہ تبدیلیاں کالعدم ٹی ایل پی کے مارچ کو نہ روکنے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر واقعی یہ وجہ ہے تو اُن کے نزدیک یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق آئی جی پولیس نے کہا کہ ٹی ایل پی رینجرز سے رُکی اور نہ ہی پولیس اسے روک سکی۔

اُن کے نزدیک اِس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی انٹیلی جنس کی ناکامی اور دوسرا پالیسی کا فقدان ہے۔ اداروں کی جانب سے بروقت انٹیلی جنس کی اطلاع نہیں دی گئی اور نہ ہی بتایا گیا کہ کیا ہونے والا ہے جس کے باعث پولیس کو اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ کیا ہو گا؟

اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دوسرا پولیس کی کوئی واضح پالیسی نہیں تھی یا انہیں واضح ہدایات نہیں دی گئیں تھیں کہ اُنہوں نے کرنا کیا ہے، جس کے باعث پولیس اہل کار گومگو کا شکار تھے۔ اُنہیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کرنا کیا ہے؟

اُن کے بقول اگر پولیس ایکشن لیتی ہے تو آخر میں پولیس پر ہی الزام لگ جاتا ہے اور تحقیقات بھگتنی پڑتی ہیں۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر پولیس ایکشن نہیں لیتی تو یہ ہوتا ہے جو اب ہو رہا ہے جس کے باعث پولیس کا بطور فورس مورال گر جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ حکومت کے لیے اچھا ہے نہ اداروں کی اس میں بہتری ہے۔

کالعدم ٹی ایل پی کے کارکنوں کی پولیس سے جھڑپیں
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:49 0:00

انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایک صاف اور واضح بیانیہ اپنانے کی ضرورت ہے جس میں بتایا جائے کہ جو سوچ ٹی ایل پی پروان چڑھا رہی ہے اِسے کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ حکومت اپنا ایک بیانیہ بنائے اور اُس کو نشر کرے اور اُس کے مطابق کام کرے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر سوشل میڈیا میں جو اِس وقت چل رہا ہے اِس میں کافی حد تک حقیقت ہے کہ پولیس کی حالیہ تبدیلیاں ٹی ایل پی کے احتجاج کے باعث ہوئی ہیں جس کی وجہ وہ خود پولیس کو سمجھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد ولید نے کہا کہ ٹی ایل پی کے خلاف حالیہ جھڑپوں میں کچھ ایسے پولیس اہل کار تھے جو بقول ان کے تشدد کے خلاف تھے اور کچھ ایسے اہل کار بھی تھے جنہوں نے حکم ماننے سے انکار کیا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ کچھ پولیس اہل کاروں نے آگے بڑھ کر مظاہرین کو روکنا بھی چاہا جس کے نتیجے میں پولیس اہل کار ہلاک اور زخمی ہوئے، البتہ حکومت نے خود مظاہرین کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔

اُن کے بقول پولیس کے پاس سہولیات کا فقدان ہے۔ پاکستان کی دوسری ایجنسیوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جو جدید تربیت، آلات اور دیگر سامان ہے وہ پولیس کے پاس نہیں ہے۔

سابق آئی جی پولیس شوکت جاوید کی رائے میں پولیس اپنے محدود وسائل میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے۔ وسائل کے اندر رہتے ہوئے پولیس فورس کی تربیت بھی ٹھیک ہے۔ جب اِسی پولیس کو واضح پالیسی مل جاتی ہے تو کارکردگی دکھاتی ہے۔

ٹی ایل پی: 'معاملہ مِس ہینڈلنگ کا نہیں، مسئلہ بلاسفیمی کا ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:18:14 0:00

خیال رہے پولیس اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان حالیہ جھڑپوں سے سات پولیس اہل کار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ٹی ایل پی نے بھی ان جھڑپوں میں اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں کے دعوے کیے ہیں جن کی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

ٹی ایل پی نے اعلان کر رکھا ہے کہ تحریک کے امیر سعد رضوی کی رہائی تک ان کے کارکن وزیرِ آباد شہر میں دھرنا جاری رکھیں گے۔

ٹی ایل پی کے مارچ کے دوران کئی روز تک لاہور سے اسلام آباد کو ملانے والی جی ٹی روڈ پر ٹریفک کا نظام درہم برہم رہا جب کہ جھڑپوں کے دوران سرکاری اور نجی املاک کو بھی نقصان پہنچا۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG