بنگلہ دیش میں میڈیا اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے نئے ڈیجیٹل سیکیورٹی قانون کی وجہ سے ملک میں آزادی صحافت کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکام اس قانون کو ناقدین اور صحافیوں کو حراست میں لینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق صرف 2020 میں صحافیوں سمیت 900 افراد کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمے بنائے گئے ہیں۔
بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات حسن محمود نے اپنے کئی انٹرویوز میں کہا ہے کہ یہ قانون لوگوں کو آن لائن جرائم سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن انسانی حقوق اور صحافتی تنظیموں کے مطابق ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ سمیت دیگر قوانین کو، جن میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ بھی شامل ہے، رواں برس مئی میں کئی رپورٹروں کو حراست میں لینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان تنظیموں کے مطابق اس سے ملک میں صحافت کی آزادی متاثر ہو رہی ہے۔
ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے فری لانس صحافی کمال احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2018 میں، جب سے یہ متنازع قانون منظور ہوا ہے تب سے ملک میں صحافتی آزادیوں پر قدغنوں میں اضافہ ہوا ہے۔
احمد کے مطابق ملک میں تنقیدی صحافت میں 2013 کے انتخابات کے بعد سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ 2013 میں ملک کی حزب اختلاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ کمال احمد کے مطابق ان انتخابات کے بعد سے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا مزاج آمرانہ ہوتا جا رہا ہے اور ملک میں تنقیدی سوچ کی جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔ ان کے بقول ملک میں تنقیدی سوچ اور اختلاف کرنے والی آوازوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
میڈیا کے نگران ادارے رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کے مطابق شیخ حسینہ کی حکومت نے میڈیا کے خلاف سخت موقف اپنا رکھا ہے۔ آر ایس ایف نے اپنی رپورٹ میں بنگلہ دیش میں صحافت سے متعلق مشکلات کی وضاحت کرتے ہوئے ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ اور وبا کے دوران رپورٹنگ کی مشکلات کا ذکر کیا۔
آر ایس ایف نے اپنی رپورٹ میں آزادی صحافت کی صورت حال سے متعلق بنگلہ دیش کو 180 ممالک میں152 واں درجہ دیا۔ یاد رہے کہ اس رپورٹ میں پہلے درجے کا مطلب اس ملک میں صحافت کی مکمل آزادی ہے۔
بنگلہ دیش کے غیر جانبدار ریسرچ گروپ سینٹر فار گورننس سٹڈیز کے مطابق ڈیجیٹل سیکیورٹی کا قانون سب سے زیادہ حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔ گروپ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ یہ قانون صحافیوں کے خلاف استعمال ہوا ہے۔
اپریل کی اپنی رپورٹ میں گروپ نے لکھا کہ اس قانون نے غیر معمولی طور پر صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے اور بقول ان کے یہ آزادی صحافت میں ایک رکاوٹ ہے۔
گروپ نے لکھا کہ ڈیٹا کے مطابق حکمران پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں نے اس قانون کے ذریعے ملک میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔
بنگلہ دیش کے صحافی مشتاق احمد کی ضمانت کی درخواست کئی بار مسترد کی گئی اور وہ رواں برس 25 فروری کو جیل میں انتقال کر گئے۔
ان کے انتقال اور اس قانون سے مقدموں میں اضافے کے بعد اس قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے ایوارڈ یافتہ صحافی سلیم صمد کے مطابق عالمی وبا کے دوران درجنوں ایسے صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے جنہوں نے کرپشن پر رپورٹنگ کی یا جنہوں نے اپنی رپورٹس میں انکشاف کیا کہ غریب علاقوں سے امدادی خوراک کو منتقل کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول ’’جن صحافیوں نے وبا کے دوران ملک کی وزارت صحت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے، انہیں بھی اس ظالمانہ قانون کے تحت نشانہ بنایا گیا۔‘‘
ان کے مطابق ان اقدامات کی وجہ سے ملک میں سیلف سینسرشپ بڑھ گئی ہے اور نیوزروم میں ایڈیٹر بہت احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی وزارت صحت سے اس سلسلے میں تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا مگر وزارت کی جانب سے وائس آف امریکہ کی ای میل کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
مشتاق احمد کی وفات کے بعد ملک کے وزیر اطلاعات حسن محمود نے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت اس بارے میں بہت محتاط ہے کہ اس قانون کو صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون پر نظرثانی کر رہے ہیں تاکہ اس کے غلط استعمال کو روکا جائے۔
واشنگٹن کے ووڈرو ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مطابق میڈیا پر دباؤ کی وجہ حکومت کی جانب سے عوامی رائے پر کنٹرول برقرار رکھنے کی خواہش ہے۔
ان کے مطابق، حالیہ برسوں میں حزب مخالف، سول سوسائٹی اور تنقیدی سوچ پر کنٹرول رکھنے کے لیے آمرانہ اقدامات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے میڈیا نے حکومت کی جانب سے مزید کریک ڈاؤن کے خطرے کے باوجود ایسے اقدامات کی مسلسل مذمت کی ہے اور اپنی آواز پہلے سے بلند کی ہے۔