رسائی کے لنکس

کیا پاکستان کرونا کی تیسری لہر کی جانب بڑھ رہا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر نظر رکھنے کے لیے قائم نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی رپورٹ کے مطابق دو مارچ کو ملک میں کرونا وبا سے 75 افراد ہلاک ہوئے جو 24 دسمبر کے بعد ایک دن میں اموات کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

اسی طرح فروری میں کرونا وائرس کے یومیہ سامنے آنے والے کیسز کی اوسط ایک ہزار کے لگ بھگ تھی۔ جو اب ایک بار پھر بڑھ کر 1500 یومیہ کے قریب آ گئی ہے۔

چار مارچ کو بھی ملک بھر میں 37 ہزار 988 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 1579 افراد کے وبا سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی۔ اسی روز 52 افراد وبا کے باعث ہلاک ہوئے۔

حال ہی میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے این سی او سی کے فیصلوں کی روشنی میں کرونا سے متعلق عائد پابندیوں کو قدرے نرم کیا گیا ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان میں کرونا وائرس کی ویکسی نیشن شروع
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:56 0:00

پی ایم اے کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کے بقول حکومت نے کرونا وائرس سے متعلق پابندیاں اٹھانے میں عجلت کا مظاہرہ کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں 70 فی صد افراد کی ویکسی نیشن تک پابندیاں نرم نہیں کرنی چاہئیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال میں یہ خدشہ ہے کہ ملک میں وبا کی تیسری لہر سر اٹھا سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بڑی جلدی میں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں اندر بیٹھ کر کھانے کی اجازت دی ہے۔ جب کہ اسی طرح شادی ہالز کو بھی کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمومی طور پر بھی ملک میں بہت کم ہی وبا سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ خدشہ ہے کہ کرونا وائرس تیزی سے صحت مند افراد کو منتقل ہو سکتا ہے اور انہیں اپنی لپیٹ میں لے گا۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق پہلی لہر کے بعد دوسری لہر کے آنے سے قبل بھی اس قسم کی بے احتیاطی سے صورتِ حال انتہائی گھمبیر ہوئی تھی۔ اس لیے حکومت کو پابندیاں نرم کرنے میں اس قدر جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جب کہ عوام کو بھی یہ شعور دینا ہو گا کہ وہ کرونا سے متعلق پابندیوں اور احتیاطی تدابیر کو ضرور اختیار کریں۔ کیوں کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔

پاکستان: لوگوں کو ویکسین لگوانے پر آمادہ کرنا بڑا چیلنج
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:50 0:00

پی ایم اے نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ نجی شعبے میں کام کرنے والے تمام ہیلتھ کیئر ورکرز اور تمام جنرل پریکٹیشنرز کو فوری طور پر ویکسی نیشن کے عمل کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں۔

ایسوسی ایشن کے مطابق تمام عمومی پریکٹیشنرز ٹیکے لگوانے پر راضی ہیں لیکن شاید حکومت کے پاس ان کی اصل تعداد کے اعداد و شمار ہی موجود نہیں ہیں۔

ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے چین سے منگوائی گئی 'سائنوفارم' ویکسین کو 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو لگائے جانے کے لیے رجسٹریشن شروع کر دی ہے۔ حکومت کو ویکسین کے بارے میں مزید معلومات شیئر کرنی چاہیے۔ قبل ازیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز ہی نے 60 سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین استعمال کرنے سے روکا تھا۔ لیکن اب اجازت دے دی گئی ہے جس سے عوامی سطح پر الجھن پائی جاتی ہے۔

'کرونا ویکسیین کی خریداری میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی'

دوسری جانب وزارتِ صحت کے حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ فی الحال کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین خریدنے میں ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستان احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ چین کی عطیہ کی گئی ویکسین ڈوزز پر انحصار کر رہا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ چین سے ملنے والی پانچ لاکھ خوراکوں میں سے دو لاکھ 75 ہزار خوراکیں طبی عملے کو لگ چکی ہیں۔

پاکستان میں کرونا ویکسین سے متعلق غلط فہمیاں
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:50 0:00

نیشنل ہیلتھ سروسز کا کہنا ہے کہ اس بارے میں ایک سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آبادی کے بڑے حصے نے اینٹی باڈیز پیدا کر لی ہیں اور اس طرح انہیں مزید کسی ویکسی نیشن کی ضرورت نہیں۔

دوسری جانب کھلاڑیوں اور سپورٹنگ اسٹاف میں کرونا کے آٹھ کیسز سامنے آنے کے بعد پاکستان میں کرکٹ کے بڑے ایونٹ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کو بھی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG