رسائی کے لنکس

سندھ میں سیاسی بنیادوں پر کرونا ویکسی نیشن کا الزام، 'وی آئی پی کلچر ہر جگہ حاوی ہے'


پاکستان میں پہلے مرحلے میں طبی عملے کو ویکسین لگانے کی مہم جاری ہے۔
پاکستان میں پہلے مرحلے میں طبی عملے کو ویکسین لگانے کی مہم جاری ہے۔

پاکستان کے صوبے سندھ میں ہفتے کو فرنٹ لائن ورکر نہ ہونے کے باوجود بعض افراد کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائے جانے پر سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ سابق گورنر سندھ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کی بیٹی اور داماد نے اپنی تصاویر سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کر کے بتایا کہ وہ وبا سے بچاؤ کی پہلی ڈوز لگوا چکے ہیں۔

تصاویر سامنے آنے کے بعد اس پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے خوب تنقید کی گئی اور صوبۂ سندھ میں ابتداً ہیلتھ ورکرز کے بجائے دیگر افراد کو ویکسین لگانے کو بدانتظامی اور وی وی آئی پی کلچر سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ان دونوں افراد کو چھ فروری کو ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی میں قائم ایک سینٹر میں ویکسین لگائی گئی۔ یاد رہے کہ صوبے بھر میں ایسے 11 سینٹرز قائم ہیں جن میں سے نو صوبائی دارالحکومت کراچی اور ایک شہید بے نظیر آباد اور دوسرا حیدرآباد میں قائم کیا گیا ہے۔ جہاں صوبے کو ملنے والی 83 ہزار ویکسینز دستیاب ہیں۔

اگرچہ دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں بھی ویکسین کے لیے ہیلتھ کیئر کے عملے کو رجسٹریشن کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد ایس ایم ایس وصول ہونے پر ہی وہ متعلقہ سینٹر میں جا کر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ تاہم اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ محمد زبیر کے اہلِ خانہ نے کس طرح ویکسین لگوانے کے لیے خود کو رجسٹرڈ کرایا یا کسی اور کی رجسٹریشن پر خود کو ویکسین لگوانے میں کامیاب ہوئے۔

ادھر صوبائی محکمۂ صحت کی ترجمان میران یوسف نے بتایا کہ غیر متعلقہ افراد کو ویکسین لگانے کے الزام میں گریڈ 18 کی ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر انیلا قریشی کو معطل کردیا ہے۔

پاکستان: لوگوں کو ویکسین لگوانے پر آمادہ کرنا بڑا چیلنج
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:50 0:00

اُن کے بقول واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری افسر بھی مقرر کر کے انہیں تین روز میں رپورٹ جمع کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ تاہم معطلی کے نوٹی فکیشن کے مطابق اپنی معطلی کے دوران بھی ڈاکٹر انیلا قوانین کے تحت تنخواہ وصول کرنے کی حق دار ہوں گی۔

اسی معاملے پر وفاقی وزیر اور کرونا وبا پر نظر رکھنے کے لیے قائم نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے بیان دیا کہ اس بارے میں شکایت موصول ہونے کے بعد سندھ حکومت کے نمائندوں کے ساتھ میٹنگ ہوئی جس میں اس بات کی سختی سے تاکید کی گئی کہ اس مرحلے میں صرف ہیلتھ ورکرز ہی کی ویکسی نیشن کی جائے۔

معاملے پر وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیر برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے بھی صوبائی حکومت پر تنقید کی۔

انہوں نے براہ راست کسی کو مخاطب کیے بغیر کہا کہ وہ مافیا جس نے کرونا پر سب سے زیادہ سیاست کی انہیں آج بھی فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کے بجائے اشرافیہ کی فکر ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز سے پہلے وفاق کی طرف سے فراہم کی جانے والی ویکسین کیا سیاسی خاندانوں کو لگائی جا رہی ہے؟

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے ہیلتھ ورکرز کے لیے پہلے مرحلے میں مختص ویکسین بااثر افراد کو لگانے کو بدقسمتی قرار دیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اسے بدانتظامی اور وی آئی پی کلچر قرار دیا۔ اُن کے بقول اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحت کے معاملے پر فرنٹ لائن ورکرز سمجھے جانے والے ہیلتھ کیئر اسٹاف کو اگر محفوظ بنایا جائے تو ہی وہ دوسروں کی زندگی کو بچا سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں پائے جانے والا وی وی آئی پی کلچر اس حقیقت پر حاوی ہوجاتا ہے۔

ڈاکتر قیصر سجاد کے بقول حکومت کو اس بارے میں ہی نہیں بلکہ اپنے ہر کام میں شفافیت اور احتساب کے مؤثر نظام کو یقینی بنانا ہو گا۔

پاکستان میں کرونا ویکسین شہریوں تک کیسے پہنچے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:27 0:00

اُن کا کہنا تھا کہ یہ معلوم کرنا چاہیے کہ جن افراد کو اس مرحلے میں ویکسین لگائی جا رہی ہے وہ کون ہیں تاکہ صحت کے شعبے سے وابستہ افراد کا تحفظ یقینی بنایا جائے تبھی عام آدمی کو بھی صحت کی سہولت کی بہتر انداز میں فراہمی ممکن ہوسکے گی۔

دوسری جانب چین کی فوج کی طرف سے پاکستان کی فوج کو کرونا ویکسین کی مزید خوراکیں عطیہ کی گئی ہیں۔

فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس عطیے پر چینی فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج پہلی فوج ہے جسے چین کی فوج کی جانب سے ویکسین فراہم کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ چین کی جانب سے سائنو فرم نامی ویکسین کی پانچ لاکھ خوارکیں گزشتہ ہفتے پاکستان کو عطیہ کی گئی تھیں جس کے بعد ملک بھر میں پہلے مرحلے میں ہیلتھ ورکرز کو ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG