برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے قدامت پسند پارٹی سے تعلق رکھنے والے ناقدین کی بات مانتے ہوئے بدھ کے روز اعلان کیا کہ جب برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا، وہ وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی۔ لیکن، یہ ابھی واضح نہیں کہ وہ عہدے سے کب دستبردار ہوں گی۔
مے نے یورپی یونین کے رہنماؤں سے برطانیہ کے الگ ہونے کے جس معاہدے پر سمجھوتا طے کیا تھا وہ دارالعوام میں واضح اکثریت سے دو بار مسترد ہو چکا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے عہدہ چھوڑ دیں گی ’’اپنے ارادے سے پہلے‘‘، اس امید کے ساتھ اگر 28 رکن ممالک کے اتحاد سے علیحدہ ہونے پر مشتمل قرارداد منظور کی جاتی ہے۔
اُنھوں نے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ چھوڑنے کی بات برطانیہ کی قدامت پسند جماعت کے قانون سازوں سے خطاب کے دوران پہلی بار کہی ہے، جس سے قبل جنوری اور پھر اسی ماہ کے اوائل میں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بِل کو 230 اور 149 ووٹوں سے مسترد کیا چکا ہے۔۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ برطانیہ کی علیحدگی کے مذاکرات کے دوسرے دور سے نئے انداز۔۔ اور نئی قیادت۔۔۔ کی خواہش پائی جاتی ہے، اور میں اس کی راہ میں حائل نہیں ہوں گی‘‘۔
اُن کے ارادے اُس وقت عام ہوئے جب پارلیمان ’بریگزٹ‘ کے نئے پیکیج پر رائے شماری پر تیار ہوا۔
دارالعوام مختلف متبادل منصوبوں پر پانچ گھنٹے تک کےمباحثے کا پروگرام بنا رہا تھا، جس میں قانون سازوں کو اختیار ہو کہ جس تجویز کو چاہیں تسلیم کریں اور اسی کو ووٹ دیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ معروف منصوبے پر اگلے پیر کو دوسری بار ووٹنگ ہوگی، اس امید کے ساتھ کہ کسی تجویز کو اکثریت کی حمایت حاصل ہو جائے۔
بدھ کے مباحثے سے دو روز قبل پارلیمانی ارکان نے ’بریگزٹ‘ کے مباحثے پر حکومت پر سبقت لینے کی کوششں کی۔
مے نے کہا ہے کہ وہ دیگر منصوبوں کے لیے حمایت کو ’’علامتی ووٹ‘‘ تصور کریں گی۔ لیکن، اُنھوں نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ نتائج کو قبول کریں گی۔
اس وقت 16 متبادل تجاویز زیر غور ہیں، جن میں وہ تجویز بھی شامل ہے کہ 28 ملکی یورپی یونین کو چھوڑا جائے، جب کہ اس کی تفصیل موجود نہیں ہے؛ یا یورپی یونین میں رہا جائے جس معاملے پر ملک میں نیا ریفرنڈم کرایا جائے۔
تین سال قبل برطانیہ نے یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیا۔ لیکن جمعے کے روز اس پر عمل درآمد کی تاریخ قریب آئی تو ساتھ ہی مے کی جانب سے یورپی یونین کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں سمجھوتے کی شرائط پر بحران کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔
تجارت اور یورپی یونین کے رکن آئرلینڈ اور لندن کے زیر کنٹرول شمالی آئرلینڈ کے درمیان سرحد کے معاملے پر بحث چھڑ گئی، جس کے آر پار مقامی لوگ روزانہ آتے جاتے رہتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے، یورپی یونین نے کہا تھا کہ اگر پارلیمان اُس معاہدے کو منظور کرتا ہے جو بات چیت کے بعد مے کے ساتھ طے ہوا تھا، تو 22 مئی سے بریگزٹ پر عمل درآمد ہوگا۔ ورنہ 12 اپریل تک برطانیہ کو بتانا ہوگا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔
مے کو توقع ہے کہ وہ اپنی تجویز پر دوبارہ ووٹنگ کرائیں گی، حالانکہ اس سے قبل دو بار ووٹنگ میں اُنھیں فیصلہ کُن شکست ہوچکی ہے۔
اس سے قبل اُن کی کنزرویٹو پارٹی کے وہ ارکان جو ’بریگزٹ‘ کے حامی ہیں اُن سے استعفیٰ مانگا تھا، لیکن بدھ تک وہ اِس پر رضامند نہیں تھیں۔